Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2014

غزل

وسعت۔چشم کو اندوہ۔بصارت لکھا میں نے وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا میں نے لکھا کہ صفحہ۔دل کبھی خالی نہ ہوئی اور کبھی خالی ہوئی بھی تو ملامت لکھا صرف آواز کہاں تک مجھے جاری رکھتی ...

دھند

یکم جنوری ہر طرف دھند ہے دھند ہی دھند ہے ایسے لگتا ہے جیسے زمین آسماں دھند کے اس اجل خیز سیلاب میں خر و خس کی طرح بہتے بہتے کہیں دور کھو جائیں گے وہ منظر جو گنتی میں آتے نہ تھے ایک ہو جائیں گے بے یقینی کے رنگوں میں الجھی ہوئی چاندنی درد کی جگمگاتی نہیں دھند کی جھیل پر تیرتی ہے مگر راہ پاتی نہیں وہ نذر جو ستاروں کی ہمراز تھی دس قدم دور تک ساتھ جاتی نہیں روشنی بھی کہیں کچھ دکھاتی نہیں آنکھ کہتی ہے باہر بہت دھند ہے دل کہتا ہے اندر بھی کم تو نہیں۔۔۔۔۔