جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں! تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف کی دکّان پر میں نے دیکھا تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں! یہ وہ دور تھا جس میں میں نےکبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب پلٹ کر نہ دیکھا ــــــــــ وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلےگل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے وہ ہم سے خود اپنے عمل سے خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں! "جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے تغاروں میں مٹی کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں سنگ بستہ پڑی تھی صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارےشکستہ پڑے تھے میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گِل خاک بر سر برہنہ سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کےگل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا جہاں زاد، نو سال پہلےتو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی ...