Skip to main content

Posts

Showing posts from July, 2017

نظم

ﻧﮧ ﮨﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﻋﺸﻖ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﮭﮑﯽ ﮨﮯ ﺩﯾﺎ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮨﻮﺍ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺳﮑﻮﮞ ﮨﯽ ﺳﮑﻮﮞ ﮨﮯ، ﺧﻮﺷﯽ ﮨﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺗﺮﺍ ﻏﻢ ﺳﻼﻣﺖ، ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﻤﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮨﮯ ﮐﮭﭩﮏ ﮔﺪﮔﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﺰﺍ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻋﺸﻖ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﮑﺎﮞ ﺟﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﺯﻣﺎﻧﮧ، ﻧﺌﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﮯ ﺟﻔﺎﺅﮞ ﭘﮧ ﮔﮭُﭧ ﮔﮭُﭧ ﮐﮯ ﭼُﭗ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ ﺧﻤﻮﺷﯽ ﺟﻔﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﻣﺮﮮ ﺭﺍﮨﺒﺮ ! ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻨﺰﻝ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺧﻤﺎﺭِ ﺑﻼ ﻧﻮﺵ ! ﺗُﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺑﮧ ! ﺗﺠﮭﮯ ﺯﺍﮨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ

جی کا جانا ٹھہر گیا ہے

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا  عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا  کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا  آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا  ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا  گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سردست اکثر ہیں لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا  لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں تو مدت سے اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا  نالۂ میرؔ سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا شاید شہر سے اس ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا