Skip to main content

Posts

Showing posts from September, 2019

دل کے ویرانے

ویرانہ جگمگاتے تھے امیدوں کے فلک بوس محل عظمتِ شوق کے مینار فروزاں تھے کبھی کتنے گونجے ہوئے جذبات کے کاشانے تھے کتنے جاگے ہوئے رنگین شبستاں تھے کبھی کہکشاں تھی بھی تو پامالِ روِش تھی اُس کی چاند تاروں سے حسیں اُس کے گلستاں تھے کبھی کتنے نوعمر حسیں، کتنے جواں سال حسیں زلف کھولے ہوئے ہر سمت خراماں تھے کبھی دل کے ویرانے پہ اے دوست نظر کرتا جا! صبح ہنستی ہوئی رکھتی تھی گلستاں میں قدم رات اوڑھے ہوئے تاروں کی رِدا آتی تھی آرزوؤں کے گُل آریز دریچوں سے سدا گنگناتی ہوئی جنّت کی ہوا آتی تھی جیسے مستی میں کسی زلف کی کُھل جائے گِرہ اِس طرح جھوم کے گھنگھور گھٹا آتی تھی دل کے سوتوں میں کوئی ساز بجا کرتا تھا دھیمی دھیمی کسی چھاگل کی صدا آتی تھی دل کے ویرانے پہ اے دوست نظر کرتا جا! چاندنی رات میں اجڑی ہوئی اِس منزل پر آج اک درد کا پرتَو سا نظر آتا ہے ڈوبتے تاروں سے شبنم کے خنک اشکوں میں تھرتھراتا ہوا اک عکس اتر آتا ہے ڈوب جاتی ہے نظر درد کے طوفانوں میں پھر سے ماضی کا ہر اک نقش ابھر آتا ہے آج مدّت سے ہے خاموش یہ نغموں کا دیار گنگناتا ہوا اب کون اِدھر آتا ہے؟ دل کے ویرانے پہ ا...

غزل

کوزہ گر ! خاک مری خواب کے خاکے سے گزار کربِ تخلیق! مجھے سوئی کے ناکے سے گزار ہستیء جاں سے گزر جائے مرا پختہ ظروف فرش پر پھینک اسے اور چھناکے سے گزار ساحلِ خشک ، نمیدہ ہو کبھی بحر...