Skip to main content

Posts

Showing posts from September, 2020

غزل

اک عالمِ حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے حیرت بھی یہ حیرت ہے کہ کیا جانیے کیا ہے سو بار جلا ہے تو یہ سو بار بنا ہے ہم سوختہ جانوں کا نشیمن بھی بلا ہے ہونٹوں پہ تبسم ہے کہ اک برقِ بلا ہے آنکھوں کا اشارہ ہے کہ سیلابِ فنا ہے سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرزِ ادا ہے ہے تیرے تصور سے یہاں نور کی بارش یہ جانِ حزیں ہے کہ شبستانِ حرا ہے اصغر گونڈوی

شعر

کیا یہ بھی میں بتلا دوں تُو کون ہے میں کیا ہوں، تُو   جانِ   تماشہ    ہے    میں   محوِ   تماشہ  ہوں..

قطعہ

‏بے وفا بھی جہاں میں وفا ڈھونڈتے ہیں بے حیا  دوسروں  میں حیا ڈھونڈتے ہیں  اپنے عیبوں کو  کوئی نہیں دیکھتا  ہے  دوسروں کے ہنر میں خطا ڈھونڈتے ہیں   فوق کاشمیری