Skip to main content

Posts

Showing posts from October, 2021

کیا تل ہے

‏اُس کے تِل پے یوں بہکے بہکے سے تصورات تھے میرے.  کیا یہ تِل ہے ؟ ہاں تِل ہے ، واہ تِل ہے ،کیا تِل ہے ،قاتِل ہے.

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے

ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو نام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے ناصرؔ کاظمی

محبت روٹھ جائے تو

وفا جب مصلحت کی شال اوڑھے سرد رت کا روپ دھارے دل کے آنگن میں اترتی ہے تو پلکوں پہ ستاروں کی دھنک مسکانے لگتی ہے کبھی خوابوں کے ان ہیولوں سے بھی ان دیکھی سی، ان جانی سی خوشبو آنے لگتی ہے کسی کے سنگ بیتے ان گنت لمحوں کی زنجیریں اچانک ذہن میں جب گنگناتی ہیں نفس کے تار میں سناٹا ایک دم چیخ اٹھتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے ہوائیں آکے سرگوشی سی کرتی ہیں محبت کا تمہیں ادراک اب تو ہوگیا ہوگا یہ جو بھی زخم دیتی ہے، کبھی سپنے نہیں دیتی محبت روٹھ جائے تو جینے نہیں دیتی

مشغلہ ‏

مشغلہ اپنی چاند راتوں کا دیکھنا خواب اور ڈر جانا آج بھی زندگی میں شامل ہے تیرے کُوچے سے ہو کے گھر جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد قاصرؔ