Skip to main content

Posts

Showing posts from January, 2022

قطعہ

‏دل نے کہا کہ اور ہو، میں نے کہا ! نہیں ، نہیں اور اِسی میں کٹ گئے، عشق کے تیس سال بھی لذتِ  زخمِ  تازہ  کو  کتنا  ترس  گیا  تھا  میں اتنا ترس گیا تھا میں، رکھ دی تھی میں نے ڈھال بھی عباس تابش

قطعہ

‏ہِندہ کی طرح جسم اُدھیڑا تھا ہوا نے لیکن مرے سینے سے کلیجہ نہیں نکلا کچھ ہم ترے معیار پہ پورے نہیں اُترے کچھ تُو بھی کہ مشہور تھا جیسا، نہیں نکلا اختر عثمان

قطعہ

وہ مجھ سے پُوچھ رہا تھا بتاؤ کیسا لگا ، تم اگلے زخموں کو چھوڑو یہ گھائو کیسا لگا ، عجب سوال کیا آندھیوں نے پتوں سے ، شجر سے ٹوٹ کر گرنا بتاؤ کیسا لگا

قطعہ

اک ربط لازمی ہو مگر رابطہ نہ ہو یعنی کہ وہ باوفا ہو مگر میرا نہ ہو کتنی عجیب بات ہے دونوں کے درمیاں میلوں کا فاصلہ ہو مگر فاصلہ نہ ہو

قطعہ

مرے عزیز کبھی خوش نہیں ہوئے مجھ سے  تمہیں بھی میری محبت سے مسئلہ رہے گا وہ میرے پیار کو ٹھکرا کے کہہ رہا ہے مجھے تم اچھے بندے ہو سو تم سے رابطہ رہے گا

وہی ہوا نا

وہی ہوا نا ؟ کہا نہیں تھا کہ عہد الفت سمجھ کے باندھو  نبھا سکو گے مجھے سمے کی تمازتوں سے بچا سکو گے بہت کہا تھا  صباحتوں میں بہل نہ جانا مجھے گرا کے سنبھل نہ جانا بدلتی رت میں بدل نہ جانا بہت کہا تھا بہل گئے نا کہا نہیں تھا ؟ سنبھل گئے نا وہی ہوا نا  بدل گئے نا.

قطعہ

تم سے ملے، مل کے بچھڑے، بچھڑ کر پھر ملے ایسی بھی قربتیں رہیں، ایسے بھی فاصلے رہے تو بھی نہ مل سکا ہمیں اور یہ عمر بھی رائیگاں گئی تجھ سے تو خیر عشق تھا، خود سے بڑے گلے رہے ۔

آخری بار ملو

آخری بار ملو آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل راکھ ہوجائیں، کوئی اور تقاضا نہ کریں چاک وعدہ نہ سِلے، زخمِ تمنّا نہ کِھلے سانس ہموار رہے شمع کی لَو تک نہ ہِلے باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گِن جائیں آنکھ اٹھائے کوئی اُمید تو آنکھیں چھن جائیں اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں جس سے اِک اور ملاقات کی صورت نکلے اب نہ ہیجان و جنوں کا، نہ حکایات کا وقت اب نہ تجدید وفا کا، نہ شکایات کا وقت لُٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیے آج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھے کل سے جو ہو گا اُسے کون سا رشتہ کہیے پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار، مِلو ماتمی ہیں دِم رخصت درو دیوار، ملو پھر نہ ہم ہوں گے، نہ اقرار، نہ انکار، مِلو آخری بار مِلو مصطفی زیدی

قطعہ

نکل کے شور سے آیا تھا اک درخت تلے  مگر یہاں تو پرندے بھی کتنا بولتے ہیں  اسے کہا تھا کہ لوگوں سے گفتگو نہ کرے   اب اس کے شہر کے سب لوگ میٹھا بولتے ہیں 

قطعہ

بن کے تیغِ غضب جب ملیں گے آپ  یوں گلے مجھ سے کب ملیں گے آپ  دمِ رخصت یہ چھیڑ تو دیکھو  مجھ سے کہتے ہیں کب ملیں گے آپ  نواب داغ