Skip to main content

Posts

Showing posts from May, 2017

نظم

دریدہ پیرَہنی کل بھی تھی اور آج بھی ہے مگر وہ اور سبب تھا، یہ اور قصّہ ہے یہ رات اور ہے، وہ رات اور تھی جس میں ہر ایک اشک میں سارنگیاں سی بجتی تھیں عجیب لذّتِ نظّارہ تھی حجاب کے ساتھ ہر ایک زخم مہکتا تھا ماہتاب کے ساتھ یہی حیاتِ گریزاں بڑی سہانی تھی نہ تم سے رنج، نہ اپنے سے بدگمانی تھی شکایت آج بھی تم سے نہیں کہ ویرانی تمہارے در سے نہ ملتی تو گھر سے مل جاتی تمہارا عہد اگر استوار بھی ہوتا تو پھر بھی دامنِ دل تار تار ہی ہوتا خود اپنی ذات ہی ناخن، خود اپنی ذات ہی زخم خود اپنا دل رگِ جاں اور خود اپنا دل نشتَر فسادِ خلق بھی خود اور فسادِ ذات بھی خود سفر کا وقت بھی خود، جنگلوں کی رات بھی خود تمہاری سنگ دلی سے خفا نہیں ہوتے کہ ہم سے اپنے ہی وعدے وفا نہیں ھوتے (مصطفیٰ زیدی)

میری پلکوں کو مت دیکھو

دیدنی میری پلکوں کو مت دیکھو اِن کا اٹھنا، اِن کا جھپکنا، جسم کا نامحسوس عمل ہے میری آنکھوں کو مت دیکھو اِن کی اوٹ میں شامِ غریباں، اِن کی آڑ میں دشتِ ازل ہے میرے چہرے کو مت دیکھو اِس میں کوئی وعدہء فردا، اس میں کوئی آج نہ کل ہے اب اُس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں اُس سینے سے لو نہ لگاؤ جس کی نبضیں چھوٹ چکی ہیں اب میرے قاتل کو چاہو میرا قاتل مرہم مرہم، دریا دریا، ساحل ساحل قاضیِ شہر کا ماتھا چومو جس کے قلم میں زہرِ ہلاہل، جس کے سخن میں لحنِ سلاسل اب اُس رقص کی دھُن پر ناچو جس کی گَت پر لُٹ گیا قاضی، جس کے لَے پر بِک گیا قاضی کراچی، 21 مئی 70 (مصطفیٰ زیدی)

غزل

سید صادق حسین شاہ کاظمی کی وفات May 4, 1989 تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے. ہاتھہ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں. ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے​. اس غزل کا ایک شعر زبان زد عام ہے لیکن اقبال کے نام سے غلط طور پر منسوب ہے سید صادق حسین شاہ کاظمی ایڈووکیٹ (ولادت:یکم اکتوبر 1898 ۔ وفات: 4 مئی 1989) از شکر گڑھ ضلع سیالکوٹ کے مجموعۂ کلام '' برگِ سبز" مطبوعہ 1976 فیروز ...