Skip to main content

نظم

دریدہ پیرَہنی کل بھی تھی اور آج بھی ہے
مگر وہ اور سبب تھا، یہ اور قصّہ ہے
یہ رات اور ہے، وہ رات اور تھی جس میں
ہر ایک اشک میں سارنگیاں سی بجتی تھیں
عجیب لذّتِ نظّارہ تھی حجاب کے ساتھ
ہر ایک زخم مہکتا تھا ماہتاب کے ساتھ
یہی حیاتِ گریزاں بڑی سہانی تھی
نہ تم سے رنج، نہ اپنے سے بدگمانی تھی
شکایت آج بھی تم سے نہیں کہ ویرانی
تمہارے در سے نہ ملتی تو گھر سے مل جاتی
تمہارا عہد اگر استوار بھی ہوتا
تو پھر بھی دامنِ دل تار تار ہی ہوتا
خود اپنی ذات ہی ناخن، خود اپنی ذات ہی زخم
خود اپنا دل رگِ جاں اور خود اپنا دل نشتَر
فسادِ خلق بھی خود اور فسادِ ذات بھی خود
سفر کا وقت بھی خود، جنگلوں کی رات بھی خود
تمہاری سنگ دلی سے خفا نہیں ہوتے
کہ ہم سے اپنے ہی وعدے وفا نہیں ھوتے
(مصطفیٰ زیدی)

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔