مَیں جسے اوڑھتا ' بِچھاتا ہُوں وہ غزل آپ کو سُناتا ہُوں ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں مَیں جہاں راہ بُھول جاتا ہُوں تُو کسی ریل سی گزرتی ہے مَیں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں ہر طرف اعتراض ہوتا ہے مَیں اگر روشنی میں آتا ہوں مَیں تجھے بُھولنے کی کوشِش میں آج کتنے قریب پاتا ہوں کون یہ فیصلہ نِبھائے گا مَیں فرشتہ ہُوں ' سچ بتاتا ہُوں ( دُشَینت کُمار )