Skip to main content

Posts

Showing posts from November, 2017

تو کسی ریل سی گزرتی ہے

مَیں جسے اوڑھتا ' بِچھاتا ہُوں وہ غزل آپ کو سُناتا ہُوں ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں مَیں جہاں راہ بُھول جاتا ہُوں تُو کسی ریل سی گزرتی ہے مَیں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں ہر طرف اعتراض ہوتا ہے مَیں اگر روشنی میں آتا ہوں مَیں تجھے بُھولنے کی کوشِش میں آج کتنے قریب پاتا ہوں کون یہ فیصلہ نِبھائے گا مَیں فرشتہ ہُوں ' سچ بتاتا ہُوں  ( دُشَینت کُمار )

جائوں جائوں ہی جو کرتے ہو

دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ بس جی بس دیکھ لیا میں تمہیں جاؤ جاؤ اس قدر آمد و شد تم کو ضرر رکھتی ہے دوستاں ہر گھڑی اس کو میں نہ آؤ جاؤ ''جاؤں جاؤں'' ہی جو کرتے ہو تو مانع ہے کون جاؤ مت جاؤ جو جاتے ہو تو جاؤ جاؤ آپ کی آنکھوں سے میرے تئیں ڈر لگتا ہے مجھ ستم کشتہ سے آنکھیں نہ ملاؤ جاؤ تم جہاں جاتے ہو مجھ کو بھی خبر ہے صاحب اپنے جانے کو نہ بندے سے چھپاؤ جاؤ سیر گلشن کو اگر جاتے ہو ہم راہ رقیب بخشو میرے تئیں مجھ کو نہ بلاؤ جاؤ ہم سے کیا منہ کو چھپائے ہوئے جاتے ہو تم ہم نے پہچان لیا منہ نہ چھپاؤ جاؤ آپ کی میری کسی طرح نہ ہووے کی صلح فائدہ کچھ نہیں باتیں نہ بناؤ جاؤ کیا میاں مصحفیؔ یاں جی کے تئیں کھوؤ گے اس کے کوچے سے کہیں رخت اٹھاؤ جائو

شعر

اِس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے​ اِس وقت نہ تیَر اے کشتئ دل، اِس وقت تو خُود گردَاب ہیں ہم​