Skip to main content

جائوں جائوں ہی جو کرتے ہو

دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ
بس جی بس دیکھ لیا میں تمہیں جاؤ جاؤ
اس قدر آمد و شد تم کو ضرر رکھتی ہے
دوستاں ہر گھڑی اس کو میں نہ آؤ جاؤ
''جاؤں جاؤں'' ہی جو کرتے ہو تو مانع ہے کون
جاؤ مت جاؤ جو جاتے ہو تو جاؤ جاؤ
آپ کی آنکھوں سے میرے تئیں ڈر لگتا ہے
مجھ ستم کشتہ سے آنکھیں نہ ملاؤ جاؤ
تم جہاں جاتے ہو مجھ کو بھی خبر ہے صاحب
اپنے جانے کو نہ بندے سے چھپاؤ جاؤ
سیر گلشن کو اگر جاتے ہو ہم راہ رقیب
بخشو میرے تئیں مجھ کو نہ بلاؤ جاؤ
ہم سے کیا منہ کو چھپائے ہوئے جاتے ہو تم
ہم نے پہچان لیا منہ نہ چھپاؤ جاؤ
آپ کی میری کسی طرح نہ ہووے کی صلح
فائدہ کچھ نہیں باتیں نہ بناؤ جاؤ
کیا میاں مصحفیؔ یاں جی کے تئیں کھوؤ گے
اس کے کوچے سے کہیں رخت اٹھاؤ جائو

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔