Skip to main content

نظم

رقص کی رات
رقص کی رات کسی غمزۂ عریاں کی کرن
اس لیے بن نہ سکی راہِ تمنا کی دلیل
کہ ابھی دور کسی دیس میں اک ننھا چراغ
جس سے تنویر مرے سینۂ غمناک میں ہے
ٹمٹماتا ہے اس اندیشے میں شاید کہ سحر ہو جائے
اور کوئی لوٹ کے آ ہی نہ سکے!

رقص کی رات کوئی دَورِ طرب
بن نہ سکتا تھا ستاروں کی خدائی گردش؟
محورِ حال بھی ہو، جادۂ آئندہ بھی
اور دونوں میں وہ پیوستگیِ شوق بھی ہو
جو کبھی ساحل و دریا میں نہ تھی،
پھر بھی حائل رہے یوں بُعدِ عظیم
لب ہلیں اور سخن آغاز نہ ہو
ہاتھ بڑھ جائیں مگر لامسہ بے جان رہے؟

تجھے معلوم نہیں،
اب بھی ہر صبح دریچے میں سے یوں جھانکتا ہوں
جیسے ٹوٹے ہوئے تختے سے کوئی تِیرہ نصیب
سخت طوفان میں حسرت سے افق کو دیکھے:
____کاش ابھر آئے کہیں سے وہ سفینہ جو مجھے
اس غمِ مرگِ تہِ آب سے آزاد کرے____
رقص کی شب کی ملاقات سے اتنا تو ہوا
دامنِ زیست سے میں آج بھی وابستہ ہوں،
لیکن اس تختۂ نازک سے یہ امید کہاں
کہ یہ چشم و لبِ ساحل کو کبھی چوم سکے!

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔