Skip to main content

یہ ‏ترک ‏تعلق ‏کا ‏کیا ‏تذکرہ ‏ہے ‏

کر رہی درحقیقت کام ساقی کی نظر
مے کدے میں گردش ساغر برائے نام ہے

پھروں ڈھونڈھتا میکدہ توبہ توبہ
مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں ہے
سلامت رہے تیری آنکھوں کی مستی
مجھے مہ کشی کی ضرورت نہیں ہے

گرہ بندی
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہ یار سلامت ہزار میخانے
سرور چیز کی مقدار پر نہیں موقوف
شراب کم ہے تو ساقی نظر ملا کر پلا
جام پر جام پینے سے کیا فائدہ؟
رات گزری تو سار ی اتر جائیگی
تیری نظروں سے پی ہے خدا کی قسم
عمر ساری نشے میں گزر جائے گی

یہ ترک تعلق کا کیا تذکرہ ہے؟
تمھارے سوا کوئی اپنا نہیں ہے
اگر تم کہو تو میں خود کو بھلادوں
تمھیں بھول جانے کی طاقت نہیں ہے

گرہ بندی
اک بار عقل نے چاہا تھا تجھ کو بھلانا
سوبار جنوں نے تیری تصویر دکھادی
ہر اک موڑ پر اک نئی مات کھائی
رہی دل کی دل میں زباں پر نہ آئی

کئے ہیں کچھ ایسے کرم دوستوں نے
کہ اب دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے
گرہ بندی
ہمیشہ میرے سامنے سے گزرنا
نگاہیں چراکر مجھے دیکھ لانا
میری جان تم مجھ کو اتنا بتادو
یہ کیا چیز ہے گر محبت نہیں ہے
ہزاروں تمنائیں ہوتی ہیں دل میں
ہماری تو بس اک تمنا یہی ہے

مجھے اک دفعہ اپنا کہہ کہ پکارو
بس اسکے سوا کوئی حسرت نہیں ہے

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔