Skip to main content

نظم ‏

یاد

رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس
چاند کشکولِ گدائی کی طرح نادم ہے
دل میں دہکے ہوئے ناسور لئے بیٹھا ہوں
یہی معصوم تصور جو ترا مجرم ہے
کون یہ وقت کے گھونگٹ سے بلاتا ہے مجھے
کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب
کون آیا ہے چڑھانے کو تمنّاؤں کے پھول
ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے قریب
وہ تو طوفان تھی، سیلاب نے پالا تھا اسے
اس کی مدہوش اُمنگوں کا فسوں کیا کہیے
تھر تھراتے ہوئے سیماب کی تفسیر بھی کیا
رقص کرتے ہوئے شعلے کا جنوں کیا کہیے
رقص اب ختم ہوا موت کی وادی میں مگر
کسی پائل کی صدا روح میں پایندہ ہے
چھپ گیا اپنے نہاں خانے میں سورج لیکن
دل میں سورج کی اک آوارہ کرن زندہ ہے
کون جانے کہ یہ آوارہ کرن بھی چھپ جائے
کون جانے کہ اِدھر دھند کا بادل نہ چھٹے
کس کو معلوم کہ پائل کی صدا بھی کھو جائے
کس کو معلوم کہ یہ رات بھی کاٹے نہ کٹے
زندگی نیند میں ڈوبے ہوئے مندر کی طرح
عہدِ رفتہ کے ہر اک بت کو لئے سوتی ہے
گھنٹیاں اب بھی مگر بجتی ہیں سینے کے قریب
اب بھی پچھلے کو، کئی بار سحر ہوتی ہے

مصطفیٰ زیدی

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔