Skip to main content

بہت ‏دنوں ‏بعد ‏

بہت دنوں بعد

بہت دنوں بعد

تیرے خط کے اداس لفظوں نے

تیری چاہت کے ذائقوں کی تمام خوشبو

مری رگوں میں انڈیل دی ہے

بہت دنوں بعد

تیری باتیں

تری ملاقات کی دھنک سے دہکتی راتیں

اجاڑ آنکھوں کے پیاس پاتال کی تہوں میں

وصال‌ وعدوں کی چند چنگاریوں کو سانسوں کی آنچ دے کر

شریر شعلوں کی سرکشی کے تمام تیور

سکھا گئی ہیں

ترے مہکتے مہین لفظوں کی آبشاریں

بہت دنوں بعد پھر سے

مجھ کو رلا گئی ہیں

بہت دنوں بعد

میں نے سوچا تو یاد آیا

کہ میرے اندر کی راکھ کے ڈھیر پر ابھی تک

ترے زمانے لکھے ہوئے ہیں

سبھی فسانے لکھے ہوئے ہیں

بہت دنوں بعد

میں نے سوچا تو یاد آیا

کہ تیری یادوں کی کرچیاں

مجھ سے کھو گئی ہیں

ترے بدن کی تمام خوشبو

بکھر گئی ہے

ترے زمانے کی چاہتیں

سب نشانیاں

سب شرارتیں

سب حکایتیں سب شکایتیں جو کبھی ہنر میں

خیال تھیں خواب ہو گئی ہیں

بہت دنوں بعد

میں نے سوچا تو یاد آیا

کہ میں بھی کتنا بدل گیا ہوں

بچھڑ کے تجھ سے

کئی لکیروں میں ڈھل گیا ہوں

میں اپنے سگریٹ کے بے ارادہ دھوئیں کی صورت

ہوا میں تحلیل ہو گیا ہوں

نہ ڈھونڈھ میری وفا کے نقش قدم کے ریزے

کہ میں تو تیری تلاش کے بے کنار صحرا میں

وہم کے بے اماں بگولوں کے وار سہہ کر

اداس رہ کر

نہ جانے کس رہ میں کھو گیا ہوں

بچھڑ کے تجھ سے تری طرح کیا بتاؤں میں بھی

نہ جانے کس کس کا ہو گیا ہوں

بہت دنوں بعد

میں نے سوچا تو یاد آیا۔

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔