Skip to main content

پھسلی سے سیڑھا

پھسلی سے سیڑھا
-----------------------------------------------------------------------------

ذرا سی دیر میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے . ہم پہلی منزل کے برآمدے میں کھڑے تھے . وہ مولانا بھی ساتھ تھے اور نیچے جھانک رہے تھے . غالباً انتظار تھا انہیں کسی کا . اتنے میں ایک ٹانگہ گزرا. مولانا چلّا کر بولے . "بھئی ٹھہرنا، تمہارا ٹانگی خالہ ہے کیا؟"
 
ادھر ٹانگے والے نے سنا ہی نہیں، مجھے بڑی ہنسی آئی. لیکن شیطان بڑی سنجیدگی سے بولے. 

"قبلہ! اگر آپ یوں فرماتے تو بہتر تھا --- کہ تمہاری خالہ ٹانگی ہے کیا!"

مولانا جھینپ گئے، انہوں نے جان بوجھ کر تھوڑا ہی کہا تھا. یونہی منہ سے نکل گیا. ویسے وہ ڈرے ہوئے ضرور تھے. 

ٹانگے کا انتظار ہوتا رہا. شیطان مولانا سے بولے "کیوں صاحب، آپ کی بجی میں کیا گھڑا ہے؟"

"بارہ بجنے والے ہیں". وہ بولے 

"میرے خیال میں اب چلنا چاہئے. سڑک پر ٹانگہ ضرور مل جاۓ گا". اور ہم تینوں نیچے اترنے لگے.

 "قبلہ، ان سیڑھیوں کے متعلق بھی ایک پراسرار  قصّہ ہے، جسے میں اس اندھیرے میں سنانا نہیں چاہتا." اور مولانا اور بھی آہستہ آہستہ اترنے لگے. 

"اجی آپ تو ہجّے کر کر کے اتر رہے ہیں. ذرا جلدی کیجئے" . شیطان بولے.

"ویسے ہی ذرا .. چکنی سیڑھیاں ہیں .. کہیں ..." وہ بولے.

"جی ہاں! واقعی! سیڑھیاں اترتے چڑھتے وقت ضرور خیال رکھنا چاہئے. کیونکہ پرسوں ہی کا ذکر ہے کہ میں جلدی جلدی زینے سے اتر رہا تھا. یکلخت جو ایک پھسلی سے سیڑھا تو دور تک سیڑھتا ہوا چلا گیا"

... شیطان / شگوفے

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔