Skip to main content

میں عشق لکھوں تجھے ہو جائے

چَل آ اِک ایسی نظم کہوں
جو لفظ کہوں وہ ہو جائے

بس اشک کہوں تو اک آنسو
تیرے گورے "گال" کو دھو جاۓ

میں "آ" لکھوں تو آ جائے
میں "بیٹھ" لکھوں تو آ بیٹھے

میرے "شانے" پر سر رکھے تو
میں "نیند" کہوں تو سو جائے

میں کاغذ پر تیرے "ہونٹ" لکھوں
تیرے "ہونٹوں" پر مسکان آئے

میں "دل" لکھوں تو دل تھامے
میں "گم" لکھوں دل کھو جائے

تیرے "ہاتھ" بناوں پنسل سے
پھر "ہاتھ" پہ تیرے ہاتھ رکھوں

کچھ "الٹا سیدھا" فرض کروں
کچھ "سیدھا الٹا" ہو جائے

میں "آہ" لکھوں تو ہائے کرے
بےچین لکھوں "بےچین" ہو تُو

پھر میں بےچین کا "ب" کاٹوں
تجھے "چین" زرا سا ہو جائے

ابھی "ع" لکھوں تو سوچے مجھے
پھر "ش" لکھوں تیری نیند اُڑے

جب "ق" لکھوں تجھے کچھ کچھ ہو
میں "عشق" لکھوں تجھے ہو جائے

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔