Skip to main content

نظم

تمھیں چھونے کی خواہش میں
 نجانے ضبط کے کتنے کڑے موسم
 تمہارے سامنے بیٹھے ہوئے میں نے گذارے ہیں
 مجھے معلوم ہے چھونے سے تم کو یہ نہیں ہو گا
 مرے ہاتھوں کی پوروں پر کئی جگنو دمک اٹھیں
 تمہارے لمس کی خوشبو مری رگ رگ میں بس جائے
 مگر شاید یہ ممکن ہے تمہارے لمس کو پا کر
 سلگتے دل کی دھرتی پر کوئی بادل برس جائے
 مگر جاناں حقیقت ہے تمھیں میں چھو نہیں سکتا!
 اگرچہ لفظ یہ میرے 
 تمہاری سوچ میں رہتے، تمہارے خواب چھوتے ہیں
 تمھیں میں چھو نہیں سکتا
 مجھے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے
 میں ڈرتا ہوں کہیں چھونے سے تم پتھر نا ہو جاؤ
 میں وہ جس نے تمھیں تتلی کے رنگوں سے سجایا ہے
 میں وہ جس نے تمھیں لکھا ہے جب بھی پھول لکھاہے
 بھلا کیسے میں اس پیکر کو چھو لوں اور ساری عمر
 میں اک پتھر کی مورت کو سجا لوں اپنے خوابو ں میں
 مجھے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے
 تمھیں پتھر اگر کر لوں تو خود بھی ٹوٹ جاؤ ں گا
 سنو جاناں!
 بھلے وہ ضبط کے موسم کڑے ہوں ذات پہ میری
 تمھیں میں چھو نہیں سکتا
ن.م

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔