Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2016

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں

مرنے کی دُعائیں کیوں مانگوں ،جِینے کی تمنّا کون کرے یہ دُنیا ہو یا وہ دُنیا ، اب خواہش ِ دُنیا کون کرے جب کشتی ثابت و سالم تھی،ساحل کی تمنّا کِس کو تھی اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنّا کون کرے جو آگ لگائی تھی تُم نے اُس کو تو بُجھایا اشکوں نے جو اشکوں نے بھڑکائی ہے،اُس آگ کو ٹھنڈا کون کرے دُنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی،ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دُنیا کو دُنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں ، اب دُنیا دُنیا کون کرے (معین احسن جذبی)

غزل

تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی اب اس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا دیار الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اُجال رکھنا بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذر تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا اعزاز احمد آذر

بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے

وہی گلیاں، وہی کوچے وہی سردی کا موسم ہے اسی  انداز  سے  اپنا نطام- زیست برہم ہے---!!! یہ حسن- اتفاق ایسا کہ پھیلی چاندنی بھی ہے وہی ہر سمت ویرانی، اداسی، تشنگی سی ہے وہی ہے بھیڑ سوچوں کی، وہی تنہائیاں پھر سے مسافر اجنبی اور دشت کی پہنائیاں پھر سے مجھے سب یاد ہے کچھ سال پہلے کا یہ قصہ ہے وہی  لمحہ  تو  ویرانے کا  اک آباد حصہ ہے---!!! مری آنکھوں میں وہ اک لمحہء موجود اب بھی ہے وہ  زندہ رات  میرے ساتھ  لاکھوں بار جاگی ہے کسی نے رات کی تنہائی میں سرگوشیاں کی تھیں کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں کسی  نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا---!! کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشا تھا راتوں کو دھڑکتا سا نیا عنواں دیا تھا میرے خوابوں کو مرے شعروں میں وہ الہام کی صورت میں نکلا تھا معانی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا وہ  جس کے  بعد گویا  زندگی  نوحہ  سرائی ہے اسے کہنا کہ " بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے " (اعزاز احمد آذر)

Shah Sahib

وٹ ويا واھيرا ويا ويا سجٹ سبهيئي، آئون روئان انھن لاء جيکي ڈک ويا ڈيئي، خبر کانہ پیئي پرين کھڑي پار ویا "شاھ صاحب

Story of a Markhor

Once upon a time close to a town there was a Markhor living on a mountain. Markhor chose that mountain because many small poisonous snake lived on the mountain for their evil deeds and disturb others wild animals and humans of town. As you know that the Markhor is a snake eating animal and he hunt snakes. Gradually, Markhor become popular among all the living creatures and human population. People began to think him as the Saviour and started loving him as their own. On the other hand there was severe unrest among snakes living there. They were always thinking how to bite him day and night. But as soon as someone comes near him he got killed. Whenever snakes are killed by the eater, it was considered a great honor for snakes and their families. When they hear news of the death of a snake, they cry with tears, and friends and relatives of the dead snake get good publicity because they think that they were poor people struggling against oppression. When snakes saw that it ...

Quote

The world is in a constant conspiracy against the brave. It's the age-old struggle: the roar of the crowd on the one side, and the voice of your conscience on the other. Douglas MacArthur

گُلاب کے پھول

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے طّیور، نعمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے عروسِ گُل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول جہانِ گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ گزر رہے ہیں، تبسّم کناں، گلاب کے پھول یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز گندھے ہوئے بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول خیالِ یار ! ترے سلسلے نشوں کی رُتیں جمالِ یار ! تری جھلکیاں گلاب کے پھول مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں مثالِ چہرہِ پیغمبراں گلاب کے پھول یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

رشتہ جام و سبو

رشتۂ جام و سبُو جانے کب ابر سے نکلے مرا کھویا ہوا چاند جانے کب مجلسِ ارباب ِوفا روشن ہو راستے نور طلب شامِ سفر عکس ہی عکس ڈوبتے، کانپتے ، سہمے ہوئے، بجھتے ہوئے دل درد کا بوجھ اٹھائے ہوئے گھبرائے ہوئے صبح کے کفش زدہ رات کے ٹھکرائے ہوئے جانے کب حلقۂ گرداب سے ابھرے ساحل سر پٹکتی ھوئی موجوں کا تلاطم کم ہو جانے کب گونجتی لہروں کی صدامدّھم ہو کف اگلتا ہوا طوفان، پر اسرار ہوا غیر محفوظ خلاؤں میں زمیں کا بن باس نہ فضا لطف پہ مائل، نہ فلک درد شناس کر دئیے ترک قبیلوں نے جنوں کے رشتے زخم کس طرح بھریں چاکِ جگر کیسے سلیں سرحدیں آگ کامیدان بنی بیٹھی ہیں اے غزالانِ چمن اب کے ملیں یا نہ ملیں مل کے بیٹھیں بھی توجانے کوئی کیا بات کہے رشتۂ جامِ و سبوُ یاد رہے یا نہ رہے (مصطفیٰ زیدی)​