رشتۂ جام و سبُو
جانے کب ابر سے نکلے مرا کھویا ہوا چاند
جانے کب مجلسِ ارباب ِوفا روشن ہو
راستے نور طلب شامِ سفر عکس ہی عکس
ڈوبتے، کانپتے ، سہمے ہوئے، بجھتے ہوئے دل
درد کا بوجھ اٹھائے ہوئے گھبرائے ہوئے
صبح کے کفش زدہ رات کے ٹھکرائے ہوئے
جانے کب مجلسِ ارباب ِوفا روشن ہو
راستے نور طلب شامِ سفر عکس ہی عکس
ڈوبتے، کانپتے ، سہمے ہوئے، بجھتے ہوئے دل
درد کا بوجھ اٹھائے ہوئے گھبرائے ہوئے
صبح کے کفش زدہ رات کے ٹھکرائے ہوئے
جانے کب حلقۂ گرداب سے ابھرے ساحل
سر پٹکتی ھوئی موجوں کا تلاطم کم ہو
جانے کب گونجتی لہروں کی صدامدّھم ہو
کف اگلتا ہوا طوفان، پر اسرار ہوا
غیر محفوظ خلاؤں میں زمیں کا بن باس
نہ فضا لطف پہ مائل، نہ فلک درد شناس
سر پٹکتی ھوئی موجوں کا تلاطم کم ہو
جانے کب گونجتی لہروں کی صدامدّھم ہو
کف اگلتا ہوا طوفان، پر اسرار ہوا
غیر محفوظ خلاؤں میں زمیں کا بن باس
نہ فضا لطف پہ مائل، نہ فلک درد شناس
کر دئیے ترک قبیلوں نے جنوں کے رشتے
زخم کس طرح بھریں چاکِ جگر کیسے سلیں
سرحدیں آگ کامیدان بنی بیٹھی ہیں
اے غزالانِ چمن اب کے ملیں یا نہ ملیں
زخم کس طرح بھریں چاکِ جگر کیسے سلیں
سرحدیں آگ کامیدان بنی بیٹھی ہیں
اے غزالانِ چمن اب کے ملیں یا نہ ملیں
مل کے بیٹھیں بھی توجانے کوئی کیا بات کہے
رشتۂ جامِ و سبوُ یاد رہے یا نہ رہے
رشتۂ جامِ و سبوُ یاد رہے یا نہ رہے
(مصطفیٰ زیدی)
Comments
Post a Comment