وہی گلیاں، وہی کوچے وہی سردی کا موسم ہے
اسی انداز سے اپنا نطام- زیست برہم ہے---!!!
اسی انداز سے اپنا نطام- زیست برہم ہے---!!!
یہ حسن- اتفاق ایسا کہ پھیلی چاندنی بھی ہے
وہی ہر سمت ویرانی، اداسی، تشنگی سی ہے
وہی ہر سمت ویرانی، اداسی، تشنگی سی ہے
وہی ہے بھیڑ سوچوں کی، وہی تنہائیاں پھر سے
مسافر اجنبی اور دشت کی پہنائیاں پھر سے
مسافر اجنبی اور دشت کی پہنائیاں پھر سے
مجھے سب یاد ہے کچھ سال پہلے کا یہ قصہ ہے
وہی لمحہ تو ویرانے کا اک آباد حصہ ہے---!!!
وہی لمحہ تو ویرانے کا اک آباد حصہ ہے---!!!
مری آنکھوں میں وہ اک لمحہء موجود اب بھی ہے
وہ زندہ رات میرے ساتھ لاکھوں بار جاگی ہے
وہ زندہ رات میرے ساتھ لاکھوں بار جاگی ہے
کسی نے رات کی تنہائی میں سرگوشیاں کی تھیں
کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں
کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں
کسی نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا---!!
کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا
کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا
چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشا تھا راتوں کو
دھڑکتا سا نیا عنواں دیا تھا میرے خوابوں کو
دھڑکتا سا نیا عنواں دیا تھا میرے خوابوں کو
مرے شعروں میں وہ الہام کی صورت میں نکلا تھا
معانی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا
معانی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا
وہ جس کے بعد گویا زندگی نوحہ سرائی ہے
اسے کہنا کہ " بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے "
اسے کہنا کہ " بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے "
(اعزاز احمد آذر)
Comments
Post a Comment