اپنی آمدنی مینج کریں
آج ایک موقر جریدہ میں ایک لائق عمل بجٹ پلان نظر سے گزرا خاطر میں آیا کہ آپ دوستوں کے ساتھ شیئر کروں۔
پڑھیں اور عمل کیجیے۔
پڑھیں اور عمل کیجیے۔
بجٹ کیسے بنائیں؟
انسانی زندگی میں پیسے یعنی مال کی اہمیت ایک بنیادی ضرورت کی ہے۔ پیسوں کے بغیر نہ ہی ہم اپنے گھر کے اخراجات پورے کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ سماج میں ایک باعزت اور مستحکم زندگی گزارنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے پاس ایک معقول رقم اپنے اخراجات کے لیے موجود ہو، یہ معاملہ اس وقت مزید اہم ہوجاتا ہے جب شوہر یا بیوی کی حیثیت سے ہمارے کاندھوں پر ایک خاندان کی ذمہ داری آجاتی ہے۔ کیونکہ گھر کی معاشی صورت حال ٹھیک نہ ہو تو کئی جھگڑے اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
بعض لوگوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی آتی ہے لیکن پیسے آتے ہی پانی کی طرح بہہ جاتے ہیں اور انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ کیسے کہاں چلے گئے؟ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز نوٹ کرلیتے ہیں کہ کہاں کہاں کیا خرچ کیا ہے لیکن ان کے ساتھ بھی یہ مسئلہ بہرحال موجود ہوتا ہے کہ معقول آمدنی کے باوجود اخراجات پورے نہیں ہوپاتے اور ہر ماہ یا کسی بھی شادی، غم یا کسی ہنگامی یا غیر غیرمتوقع اخراجات کے لیے کہیں سے ادھار کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے مال و ثروت سے نوازا ہے ، لیکن ان کے اخراجات بھی اس طرح ہوتے ہیں کہ انھیں پیسوں کا آنا اور چلے جانا کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ بچت یا سرمایہ کاری کے مواقع پر نظر رکھ پاتے ہیں۔ ان سب کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے گھریلو بجٹ کی سمت ،اہداف اور حدود کا بالکل تعین نہیں ہوتا اور نتیجتاً معاشی تنگی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ جملہ تو اب بالکل عام ہوچکا ہے کہ پیسے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان سب مسائل حل یہی ہے کہ ہم نہ صرف اخراجات نوٹ کریں بلکہ منصوبہ بندی کریں اور بجٹ بھی بنائیں۔
مشہور بزنس مین، مصنف اور موٹیویشنل سپیکر ہارو ایکر نے اپنی کتاب Secrets of the Millionaire Mind میں بجٹ سازی کے لیے ایک منفرد نظریہ پیش کیا ہے جسے 6 Jars system کہا جاتا ہے۔ یہ بجٹ بنانے کا ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے آپ اپنے اخراجات قابو میں کرسکتے ہیں اور آئندہ کے لیے بھی بچت کرسکتے ہیں۔ اس طریقے کے مطابق آپ کو ماہانہ ملنے والی ہر آمدنی کو چھ حصوں یا Jars میں تقسیم کرنا چاہیے۔ جس کا ایک معیاری تناسب ایکر نے خود طے کیا ہے مثلاً ضروریاتِ زندگی کے لیے 55 فیصد ، تاہم آپ اپنی سہولت اور ضرویات کے مطابق اس تناسب کو اپنے لیے کچھ تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس بجٹ سسٹم میں ضروری ہے کہ آپ ہر ایک چیز کے لیے جو رقم مختص کرتے ہیں اس سے تجاوز نہ کریں اور اس پر ہر صورت پابندی سے عمل پیرا رہیں۔ مثلاً آپ نے تعلیم کے لیے اگر 10 فیصد کے حساب سے فرض کریں کہ 2000 روپے مختص کیے ہیں تو پھر 4000 کی فیس والے اداروں میں نہ جائیں بلکہ اپنی چادر کے مطابق ہی پاؤں پھیلائیں۔ یہ بجٹ سسٹم بلامبالغہ لاکھوں لوگ اپنائے ہوئے ہیں اور انھوں نے اس طریقے سے اپنی معاشی زندگی کو انقلابی طور پر بہتر بنایا ہے۔ اس بجٹ سسٹم کے ذریعے آپ اپنی آمدنی اور سیونگ کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں اور آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے وسائل اور مصرف کیا ہیں۔ بہرحال ایکر کے مطابق ہمیں اپنا بجٹ ان چھ حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے، جس کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ ضروریات زندگی55%
معاشی حوالے سے ہماری روز مرہ کی زندگی میں سب سے اہم ہمارے گھریلو اخراجات ہی ہوتے ہیں۔ گھر کے ضروری سامان، ادویات،کرایہ، راشن، بجلی گیس بلز، اسکول فیس، گھر کے افراد کی پاکٹ منی وغیرہ ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس لیے آپ کی آمدنی کا 55% حصہ آپ کی ضرویاتِ زندگی (necessities) کے لیے ہونا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اسے اپنی ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔
۲۔تعلیم: 10%
علم حاصل کرنا اور سیکھنا دراصل انسانیت کا بنیادی شرف ہے اور آپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ ہر ماہ اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ جو ایکر کے مطابق 10 فیصد ہونا چاہیے، تعلیم پر ضرور خرچ کریں۔ گھر کی مجموعی سطح پر آپ اس میں سے بچوں کی اضافی فیس، کتب وغیرہ کے اخراجات کرسکتے ہیں جبکہ انفرادی سطح یعنی اپنے لیے رکھی گئی پاکٹ منی میں سے یہ حصہ آپ مختلف کورسز کتب وغیرہ میں صرف کرسکتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ اس حصے کو غیرضروری سمجھ کر نظر انداز نہ کیجیے بلکہ سیکھنے میں انوسیٹمنٹ آپ کی بہتر زندگی کے لیے بالکل ضروری ہے۔
غیر متوقع/لانگ ٹرم پلاننگ 10%
غیر موقع یا لانگ ٹرم پلاننگ کے لیے آپ اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ مختص کرلیجیے۔ یہ وہ خرچہ ہے جو یا تو آپ کے لانگ ٹرم پلان میں موجود ہو، مثلاً آپ کو مہنگا لیپ ٹاپ،فرنیچر، گاڑی یا گھر لینا ہے، کسی کی شادی کے اخراجات ہیں ، یا تعلیم کے سلسلے میں داخلہ فیس یا خواہ کسی خیراتی کام کے حوالے سے کوئی پلان ذہن میں ہو، اس طرح کے تمام اخراجات جو مستقبل میں ہوسکتے ہیں اس کے لیے آپ ہر ماہ دس فیصد لازماً محفوظ کریں۔ اگر آپ کے پاس ایسے کوئی اخراجات یا پلان نہیں ہے تو بھی اسے آپ محفوظ ضرور کیجیے تاکہ اپنے لائف اسٹائل کو بہتر بنانے یا پھر کسی نیک مقصد سے کسی بڑے کام کو مکمل کرنے میں آپ کو آسانی رہے۔
فنائنشل فریڈم اکاؤنٹ/لانگ ٹرم پلاننگ 10%
یہ دس فیصد حصہ آپ کو ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے نکالنا ہے اور اسے محفوظ کرکے مکمل طور پر بھول جائیں اور کسی بھی صورت حال میں اس رقم کو نہ چھیڑیں۔ اس رقم کا اصل مقصد آپ یا آپ کے اعزا و اقربا کا محفوظ مستقبل ہے۔ بڑھاپے یا خدانخواستہ کسی ناگہانی صورت حال میں یہ رقم آپ کے کام آسکتی ہے۔یہ یاد رہے کہ ہر ماہ آپ کو یہ رقم محفوظ کرنی ہے اور اسے رکھ کر بالکل بھول جائیں اور کسی بھی صورت اسے استعمال نہ کریں الّا یہ کہ کوئی ناگہانی صورت ہو۔
کھیل و تفریح/لانگ ٹرم پلاننگ 10%
اپنی ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی زندگی میں مناسب کھیل و تفریح بھی شامل رکھیں۔ اس لیے آپ کی آمدنی میں دس فیصد حصہ آپ کے کھیل و تفریح کے لیے ہونا چاہیے۔ جس میں آپ ہر ماہ یا جمع کرکے ہر کچھ ماہ بعد پکنگ ٹور وغیرہ پر جاسکتے ہیں۔ باہر کھانا،کھیل کے نئے سامان لینا، پارٹی وغیرہ اسی میں شامل ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ 5%
سب سے آخر لیکن اہم یہ ہے کہ آپ اپنی آمدنی میں سے اللہ کی راہ میں بھی لازماً خرچ کریں۔انفاق فی سبیل اللہ اپنے مال و نفس کو پاک کرنے کےلیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ عمل اس لیے ضروری ہے کہ ہمارا مال عیش و عشرت کا سامان بننے کے بجائے ہمارے لیے آخرت سنوارنے کا ذریعہ بنے۔ہماری زندگی کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے رہیں بلکہ جس ہستی پاک اللہ رب العزت نے ہمیں مال سے نوازا ہے، اپنی آمدنی سے اس کی عبادت اور اس کی راہ میں خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ واضح رہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس مال و دولت کی فروانی ہو، یا مڈل کلاس کے افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ میں امیر و غریب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سبھی شامل ہیں۔ ہر شخص اپنی آمدنی اور حیثیت کے مطابق خرچ کرسکتا ہے اور ضرور کرنا چاہیے۔ ہاور ایکر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی آمدنی کا کم از کم پانچ فیصد چیرٹی میں خرچ کرنا چاہیے۔ بالفرض آپ کی آمدن 10 ہزار روپے ہے تو پانچ فیصد کے حساب سے آپ ہر ماہ 500 روپے اللہ کی راہ (Charity) میں خرچ کرسکتے ہیں۔ تاہم اپنی استطاعت کے مطابق اس میں کمی یا زیادتی (مثلاً بیس فیصد یا پانچ فیصد ) ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی بھی ہے کہ جب اللہ کی راہ میں خرچ کا بولا جائے تو اس سے مراد وہ پروفیشل بھکاریوں کو بھیک دینا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انفاق ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اس میں تعلیمی ادارے، ہسپتال، پانی کا انتظام، کسی کے روزگار کی ضرورت پوری کرنا، دعوت یا ہر اس کام میں مالی معاونت ہوسکتی ہے جس میں کسی مسلمان کی بھلائی ہو۔
یہ بجٹ سسٹم ہاور ایکر کا بنایا ہوا ہے جس میں 55 فیصد ضروریات کے لیے باقی امور کے لیے دس دس فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ آپ چاہیں تو مختلف حصوں کے تناسب (یعنی فیصد) کو اپنی آمدنی اور ضروریات کے اعتبار سے بدل سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ اس اصول پر قائم رہیں اور ہر ماہ اس کے مطابق ہی عمل کریں۔ اگر کسی ماہ کسی ایک حصے میں کوئی خرچ نہ ہو تو آپ مقررہ رقم کو اسی مقصد کے لیے محفوظ Saving کرلیں۔مثلاً کسی ماہ تفریح وغیرہ کا موقع نہ ملے، یا کوئی بھی تعلیمی اخراجات نہ ہو تو اسے تفریح اور تعلیم کے مقصد کے لیے محفوظ کرلیں۔ مستقبل میں انھی مقاصد کے لیے یہ جمع شدہ رقم آپ استعمال کرسکتے ہیں۔ نیز ہر ماہ یا کبھی کبھار آپ کے کہیں سے کوئی اضافی رقم آجائے ، تو اسے فوری خرچ کے بجائے تین حصے کرکے تعلیم، لانگ ٹرم پلاننگ اور فنائنشل فریڈم اکاؤنٹ میں محفوظ کرلیں۔اب ہم ایک ٹیبل کی مدد سے اس پوری تحریر کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ آئندہ جب بھی آپ کے ہاتھ سیلری آئے آپ تو اسے صحیح طرح مینج بھی کریں۔
کل آمدنی کا فیصدمصرفتفصیل55%ضروریاتِ زندگیکرایہ، راشن، ادویات، بلز ، روزمرہ اخراجات وغیرہ10%تعلیمکتب، کورسز، سیمینار، تعلیمی و تربیتی اخراجات5%انفاقکسی بھی نیک مقصد کے لیے خرچ کیجیے۔10%لانگ ٹرم پلاننگکسی بھی غیرمتوقع ضرورت،خواہش یا مستقبل پلان کے لیے10%فنائنشل فریڈمناگہانی صورت حال اور بڑھاپے کے لیے10%کھیل و تفریحپکنک، پارٹی ، ٹورآپ مختلف حصوں کے تناسب (یعنی فیصد) کو اپنی آمدنی اور ضروریات کے اعتبار سے بدل سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ اس اصول پر قائم رہیں اور ہر ماہ اس کے مطابق ہی عمل کریں۔
Comments
Post a Comment