کوئی نہیں خلوص کےمحور کے آس پاس
جنگل سا بس گیا ھے میرے گھرکےآس پاس
یہ کون مجھ سےپہلےگیا سرکو پھوڑ کر
سُرخی لہو کی پھیلی ہے پتھر کے آس پاس
دُنیا نے اُس کو ریت سے منسوب کردیا
بِکھری تھی میری پیاس سمندر کے آس پاس
(مشتاق احمد مشتاق)
کوئی نہیں خلوص کےمحور کے آس پاس
جنگل سا بس گیا ھے میرے گھرکےآس پاس
یہ کون مجھ سےپہلےگیا سرکو پھوڑ کر
سُرخی لہو کی پھیلی ہے پتھر کے آس پاس
دُنیا نے اُس کو ریت سے منسوب کردیا
بِکھری تھی میری پیاس سمندر کے آس پاس
(مشتاق احمد مشتاق)
Comments
Post a Comment