Skip to main content

Posts

Showing posts from January, 2020

نا اھل اسان جو مالی آ

نا اھل اسان جو مالي آ معصوم وڻن جو ڇا ٿيندو بد ذوق جي ھٿ ۾ باغ رھيو ھن منھنجي چمن جو ڇا ٿيندو ڪانون کي اجازت ڪان ڪان جي بلبل جي صدا تي بندش آ ھر شاخ تي ظالم ويٺو آ مرغان چمن جو ڇا ٿيندو ھي نرم ۽ نازڪ ٻئي ھٿڙا مضبوط گلو خنجر جو وزن تون منھنجي ڪسڻ جو فڪر نہ ڪر پر تنھنجي ھٿن جو ڇا ٿيندو جتي مور ھئا اتي ڪانٔ ڪٻر ڍڀ ٿو پوکين جٿي آھي ڇٻر خراساني کي ناھي خبر ھن منھنجي متاء جو ڇا ٿيندو

Moringa Tree

سہانجنا_سوانجھڙو_Moringa  شاہ صاحب نے اس درخت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس درخت کے خشک پتے ہماری خوراک ہوتی تھی۔ ہم صبح ہتھیلی بھر کر پانی کے ساتھ یہ کھا لیتے تھے اور پھر دن بھر کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی کمزوری ہوتی۔ یہ ہم سادھوئوں کی خوراک تھی میں ایک دن انٹرنیٹ پر نئی تحقیق کی فائلیں چھان رہا تھا کہ میری نظر ایک فائل پر پڑی The Miracle Tree  ’’یعنی معجزاتی درخت‘‘ میں فوراً اس کی طرف لپکا اور اسے پڑھنا شروع کیا، کہ یہ معجزاتی درخت 300بیماریوں کا کامل علاج ہے جو کسی نہ کسی غذائی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس درخت کے خشک پتے 50گرام طاقت میں برابر ہیں۔ 4گلاس دودھ، 8مالٹے، 8 کیلے، 2پالک کی گڈیاں، ۲کپ دہی،18ایمائنو ایسڈز، 36 وٹامن او 96اینٹی اوکسیڈینٹ ‘میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا کہ یہ پودا کتنا طاقتور ہے، سبحان اللہ، وٹامن اے گاجر میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں چار گناہ زیادہ ہے۔ فولاد پالک میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں چار گناہ زیادہ ہے۔ پوٹاشیم کیلے میں بہت زیادہ ہے مگر اس میںتین گنا زیادہ ہے۔ وٹامن سی مالٹے میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں سات گنا زیادہ ہے اسی طرح ان ا...

دریدہ پیرہنی

فسادِ ذات دریدہ پَیرہَنی کل بھی تھی اور آج بھی ہے مگر وُہ اورسبب تھا یہ اَور قِصہ ہے یہ رات اور ہے، وہ رات اور تھی ، جس میں ہر ایک اشک میں سارنگیاں سی بجتی تِھیں عجیب لذت ِ نظارہ تھی حجاب کے ساتھ ہر ایک زخم مہکتا تھا ماہتاب کے ساتھ یہی حیاتِ گُریزاں بڑی سہانی تھی نہ تم سے رنج نہ اپنے سے بد گُمانی تھی شکایت آج بھی تم سے نہیں کہ محرومی تمھارے در سے نہ ملتی تو گھر سے مل جاتی تمھارا عہد اگر اُستوار ہی ہوتا تو پھر بھی دامنِ دل تار تار ہی ہوتا خود اپنی ذات ہی ناخُن، خود اپنی ذات ہی زخم خُود اپنا دل رگِ جاں اَور خُود اپنا دِل نِشتر فساد ِ خلق بھی خُود اور فساد ِ ذات بھی خود سفر کا وقت بھی خود، جنگلوں کی رات بھی خود تمھاری سنگدلی سے خفا نہیں ہوتے کہ ہم سے اپنے ہی وعدے وفا نہیں ہوتے (مصطفیٰ زیدی)

کلام حضرت امیر خسرو

زی حالِ مسکیں ، مکن تغافل ، ورائے نیناں بنائے بتیاں کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں، نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں مجھ مسکین کے حال سے غفلت نہ برت، باتیں بنا کر آنکھیں نہ پھیر۔ اے محبوب ، اب مجھ میں جدائی سہنے کی تاب نہیں، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے؟ چوں شمعِ سوزاں ، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریہ بہ عشق آں میں نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجی پتیاں عشق میں جلتی ہوئی شمع اور حیران و پریشان ذرے کی طرح میں ہمیشہ آہ و زاری کرتا ہوں۔آنکھوں میں نیند نہیں، جسم کو چین نہیں۔  وہ  خود آتا ہے، اور نہ  خط لکھتا ہے۔ شبانِ ہجراں دراز چوں زلف چہ روزِ وصلت چہ عمر کوتاہ سکھی ! پیا کو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں جدائی کی راتیں محبوب کی زلف جیسی لمبی ہیں، اور وصل کے دن عمر کے جیسے مختصر۔ اے سہیلی، اگر میں اپنے محبوب کو نہ دیکھوں، تو پھر یہ اندھیری راتیں کیسے کاٹوں؟ یکایک از دل دو چشمِ جادو بصد فریبم ببٗرد تسکیں کسے پڑی ہے جو جا سناوے ہمارے پی کو ہماری بتیاں؟ آن کی آن میں دو جادوگر آنکھیں سو دھوکے دے کر میرے دل کا سکون برباد کر گئیں۔ اب کسے اتنی فکر ہے کہ وہ میرے...