زی حالِ مسکیں ، مکن تغافل ، ورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں، نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
مجھ مسکین کے حال سے غفلت نہ برت، باتیں بنا کر آنکھیں نہ پھیر۔ اے محبوب ، اب مجھ میں جدائی سہنے کی تاب نہیں، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے؟
چوں شمعِ سوزاں ، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریہ بہ عشق آں میں
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجی پتیاں
عشق میں جلتی ہوئی شمع اور حیران و پریشان ذرے کی طرح میں ہمیشہ آہ و زاری کرتا ہوں۔آنکھوں میں نیند نہیں، جسم کو چین نہیں۔ وہ خود آتا ہے، اور نہ خط لکھتا ہے۔
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف چہ روزِ وصلت چہ عمر کوتاہ
سکھی ! پیا کو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
جدائی کی راتیں محبوب کی زلف جیسی لمبی ہیں، اور وصل کے دن عمر کے جیسے مختصر۔ اے سہیلی، اگر میں اپنے محبوب کو نہ دیکھوں، تو پھر یہ اندھیری راتیں کیسے کاٹوں؟
یکایک از دل دو چشمِ جادو بصد فریبم ببٗرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے ہمارے پی کو ہماری بتیاں؟
آن کی آن میں دو جادوگر آنکھیں سو دھوکے دے کر میرے دل کا سکون برباد کر گئیں۔ اب کسے اتنی فکر ہے کہ وہ میرے محبوب کو میرا حال سنائے؟
امیر خسرو رح
Comments
Post a Comment