Skip to main content

کلام حضرت امیر خسرو

زی حالِ مسکیں ، مکن تغافل ، ورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں، نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

مجھ مسکین کے حال سے غفلت نہ برت، باتیں بنا کر آنکھیں نہ پھیر۔ اے محبوب ، اب مجھ میں جدائی سہنے کی تاب نہیں، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے؟

چوں شمعِ سوزاں ، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریہ بہ عشق آں میں
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجی پتیاں

عشق میں جلتی ہوئی شمع اور حیران و پریشان ذرے کی طرح میں ہمیشہ آہ و زاری کرتا ہوں۔آنکھوں میں نیند نہیں، جسم کو چین نہیں۔  وہ  خود آتا ہے، اور نہ  خط لکھتا ہے۔

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف چہ روزِ وصلت چہ عمر کوتاہ
سکھی ! پیا کو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

جدائی کی راتیں محبوب کی زلف جیسی لمبی ہیں، اور وصل کے دن عمر کے جیسے مختصر۔ اے سہیلی، اگر میں اپنے محبوب کو نہ دیکھوں، تو پھر یہ اندھیری راتیں کیسے کاٹوں؟

یکایک از دل دو چشمِ جادو بصد فریبم ببٗرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے ہمارے پی کو ہماری بتیاں؟

آن کی آن میں دو جادوگر آنکھیں سو دھوکے دے کر میرے دل کا سکون برباد کر گئیں۔ اب کسے اتنی فکر ہے کہ وہ میرے محبوب کو میرا حال  سنائے؟

امیر خسرو رح

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔