اے مرے کم نشاں!
گردش ِوقت کی دسترس سے جُدا
حلقہ چشم و لب سے بھی کچھ ماورا
میں نے سوچا تجھے
روشنی کے سبھی دائرے توڑ کر
اپنے کُنجِ قلم کی دھنک چھوڑ کر
میں نے لکھا تجھے!
بھول کر اپنے نام و نسب کا شرف
حُسن ِتقدیسِ مذہب سے بھی اُس طرف
میں نے پوجا تجھے!
تجھ سے واقف نہ تھا جب ضمیر جہاں
ایسے لمحوں میں بھی اے مرے کم نشاں
میں نے چاہا تجھے!
اب مگر سوچتا ہوں بہ نوک ِسناں
صحنِ مقتل میں کیوں ہمرہِ دشمناں ...!!
میں نے دیکھا تجھے ؟؟
محسن نقوی
Comments
Post a Comment