Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2021

شعر

اس سے کہنا کہ برا خواب تھا اب یاد نہیں  میرے بارے میں جو پوچھے کبھی دنیا تجھ سے۔ ضیاء ضمیر

چائے

‏مٹھاس تھی لمس میں کوئی چاہ میٹھی تھی۔نگاہ میٹھی تھی تیرے بعد بھی پی ہے کئی دفعہ۔ چائے ہر دفعہ پھیکی تھی 

اقوال دانش

‏اگر کوئی آپکو اہمیت دینا چھوڑ دے تو آپ شکایت کرنا چھوڑ دیں اور خاموشی اختیار کر لیں۔ ہر وقت دستیاب رہنا، پیچھے پڑے رہنا اور ہر وقت کی شکایات آپکی اہمیت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔  یاد رکھیں بھیک میں خیرات ملتی ہے، مقام، مرتبہ، عزت، چاہت اور محبت نہیں۔

شیخ ایاز

تون جو مون کي ڪونہ مڃندين، ‏مونکي ڪا پرواهه نہ آهي،  ‏آء سڀاڻي لاءِ لکان ٿو، ‏جيڪو نيٺ تہ اچڻو آهي،  ‏مونتي ميڙو مچڻو آھي. ‏شيخ‬⁩ ⁦‪اياز‬

قطعہ

تیرے غموں سے ایک بڑا فائدہ ہوا ہم نے سمیٹ لی دل مضطر میں کائنات اس راہِ شوق میں میرے نا تجربہ شناس غیروں سے ڈر نہ ڈر مگر اپنوں سے احتیاط. مصطفیٰ زیدی

قطعہ

وہ سامنے تھی اور میں سوچتا رہا جو ذہن میں سوال تھے وہ کہاں گئے؟ مجھے تو خیر عشق کھا گیا جو تیرے سرخ گال تھے وہ کہاں گئے؟

جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں

جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں، تم ہاتھ ہمارے لے جانا، جب سمجھو کہ کوئی ساتھ نہیں، تم ساتھ ہمارا لے جانا، جب دیکھو کے تم تنہا ہو، اور راستے ہیں دشوار بہت، تب ہم کو اپنا کہہ دینا، بے باک سہارا لے جانا، جو بازی بھی تم جیتو گے، جو منزل بھی تم پاؤ گے، ہم پاس تمہارے ہوں نہ ہوں، احساس ہمارا لے جانا، اگر یاد ہماری آجائے، تم پاس ہمارے آجانا، بس اک مسکان ہمیں دینا، پھر جان بھی چاہے لے جانا...

جدائی

پھر یوں ہوا کہ بات جدائی تک آگئی  خود کو ترے مزاج میں ڈھالا نہیں گیا تو نے کہا تو تیری تمنا بھی چھوڑ دی  تیری کسی بھی بات کو ٹالا نہیں گیا

شعر

‏"آ تجھـــے ہاتھ لگا کــر کبھی محســوس کــروں "تو میـــــرے خوابوں کی تعبیـــــر سے ملتا ہے بہت

زہے نصیب

نسیمِ جانفزا کے حسین جھونکے  اے تخت جمشید کی لاجونتی  میری نگارِ زیست کے نہاں خانے صدیوں سے تیرے قدموں کی تھاپ کے منتظر ہیں اے نگارِِ ارمنی آؤ شبِ زفاف کی ساعتیں تیرے لمسِ آشنائی کی بالیدگی سے تقویت پانے کو جانے کب سے ترس رہی ہیں آؤ اُنس و محبت کی چار دیواری میں مقید ہو کر اپنی روحوں کے اخطلاط سے انسطاحِ حُب انسانی کو فروغ دیں اے شب سحر کی کرن اپنی پلکوں کو جُنبش دے کر اجالوں کو  اس دھرتی کی تزئین جمال کا موقع دو  یہ روشنیاں فقط تیری آنکھوں سے مُستعار لی جاتی ھیں اے نگار آلود ماہ رُخ تمہارا میرے ہمقدم ہونا بادِ برشگال کے  جھونکوں کی طرح حسین اور پرمسرت ھے میں ہر اس جگہ کو جمالستان کا درجہ دینے کا حامی ہوں جہاں بھی تیرے قدموں نے خاک پوشی کی ھے جہاں تیری ہنسیوں کے جھرنے پُھوٹے ہیں جہاں تیری زلفوں نے ماحول مسحور کن بنایا ھے جہاں تیری گویائی کے موتی بکھرے ہیں بشاشت کی ساری وجوہات تیرے جوہر قصویٰ  لبوں کے مرہون منت ھے اے حُسن برشتہ کے گُہر بار خیالوں کے ارض و سماوات پر  تمہاری سوندھی خوشبو وقوع پزیر ہو چکی ھے تجھ پر نظر پڑتے ہی میں شہود حق کی  معرفت کا...

قطعہ

‏ہم نے مانا کہ، ______چلو مرکزی مجرم ہم ہیں !! کچھ دنوں تم نے بھی تو ہم سے محبت کی تھی نفع نقصان کی باتیں ______نہیں جچتیں ہم کو ہم نے کب یار _____ تیرے ساتھ تجارت کی تھی

سرائیکی

لگا ونج قاصد!میرے یار نوں آکھیں،تیرا بیلی سخت بیماراے ھن نازک گھڑیاں،موت دیاں،نالے ساہواں دی تنگ رفتار اے!!!!! جے کر سکناں،تاں اپڑن کر،سِدھی نیت چا کر سرکار اے!!!!!!!!! ایڈی اوکھی یار شفاء کوئ نئیں،تیرے ھِک دیدار دی مار اے،

دسمبر

دسمبر کى پہلى رات ہے  شال تو اُس نے اوڑھى ہوگى  آدھى پیالى پى لى ہوگى  آدھى عادتاً چھوڑى ہوگى  میرى یاد! ارے کہاں۔؟ اُسے اتنى فرصت تھوڑى ہوگى