Skip to main content

زہے نصیب

نسیمِ جانفزا کے حسین جھونکے 
اے تخت جمشید کی لاجونتی 

میری نگارِ زیست کے نہاں خانے صدیوں سے
تیرے قدموں کی تھاپ کے منتظر ہیں
اے نگارِِ ارمنی آؤ
شبِ زفاف کی ساعتیں تیرے لمسِ آشنائی کی
بالیدگی سے تقویت پانے کو جانے کب سے ترس رہی ہیں
آؤ اُنس و محبت کی چار دیواری میں مقید ہو کر اپنی روحوں کے اخطلاط سے انسطاحِ حُب انسانی کو فروغ دیں

اے شب سحر کی کرن
اپنی پلکوں کو جُنبش دے کر اجالوں کو 
اس دھرتی کی تزئین جمال کا موقع دو 
یہ روشنیاں فقط تیری آنکھوں سے مُستعار لی جاتی ھیں

اے نگار آلود ماہ رُخ
تمہارا میرے ہمقدم ہونا بادِ برشگال کے 
جھونکوں کی طرح حسین اور پرمسرت ھے
میں ہر اس جگہ کو جمالستان کا درجہ دینے کا حامی ہوں
جہاں بھی تیرے قدموں نے خاک پوشی کی ھے
جہاں تیری ہنسیوں کے جھرنے پُھوٹے ہیں
جہاں تیری زلفوں نے ماحول مسحور کن بنایا ھے
جہاں تیری گویائی کے موتی بکھرے ہیں
بشاشت کی ساری وجوہات تیرے جوہر قصویٰ 
لبوں کے مرہون منت ھے

اے حُسن برشتہ کے گُہر بار
خیالوں کے ارض و سماوات پر 
تمہاری سوندھی خوشبو وقوع پزیر ہو چکی ھے
تجھ پر نظر پڑتے ہی میں شہود حق کی 
معرفت کا قائل ہو چکا 
اے سکون زار آؤ میری دہلیز پر اپنے مقدس 
قدم دھرو تاکہ مسکن و ماوی کی چار دیواریوں میں 
ہر سُو محبت ہی محبت پھیل جائے  

دب اکبر کی قسم 
میرے قلب ناصبور کے دھڑکنیں 
تمہاری ترنمِ گویائی سے مدہوش ہو چکی ھیں

زہے نصیب فیروزہ طشت 
زہے نصیب بنات النعش۔🥀

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔