Skip to main content

Posts

Showing posts from November, 2016

دروازہ جو کھول کے دیکھا

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ حیرت ہے  مجھے،  آج کہاں بھول پڑے وہ بھولا نہیں دل ہجر کے لمحات کڑے وہ راتیں تو بڑی تھیں ہی ، مگر دن بھی بڑے وہ کیوں جان پہ بن آئی ہے،  بگڑا ہے اگر وہ اسکی تو یہ عادت کہ ہواوں سے لڑے وہ الفاظ تھے اسکے کہ بہاروں کے پیامات خوشبو سی برسنے لگی،  یوں پھول جڑے وہ ہر شخص مجھے تجھ سے جدا کرنے کا خواہاں سن پائے اگر ایک تو دس جا کے جڑے وہ بچے کی طرح چاند کو چھونے کی تمنا دل کو کوئی شہہ دے دے تو کیا کیا نہ اڑے وہ طوفان ہے تو کیا غم ، مجھے آواز تو دیجئے کیا بھول گئے آپ مرے کچے گھڑے وہ

والد کے نام

عزیز تر مجهے رکهتا تها وہ رگ جاں سے... یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سے وہ مان کے کہنے پہ کچه رعب مجه پہ رکهتا تها یہی وجہ تهی کہ مجهے چومتے جهجهکتا تها وہ آشنا رہا میرے ہر کرب سے ہر دم......... جو کهل کے رو نہین پایا مگر سسکتا تها جڑی تهی اس کی ہر ہاں فقط میری ہان سے یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سے ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تها تمام عمر وہ اپنون سے کٹ کے رہتا تها وہ لوٹتا تها کہین رات دیر کو دن بهر وجود اس کا پسینے مین ڈهل کے بہتا تها گلے تهے پهر بهی مجهے ایسے چاک داماں سے یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سے پرانا سوٹ پہنتا تها کم وہ کهاتا تها مگر کهلونے میرے وہ سب خرید لا تا تها وہ مجه کو سوئے ہوئے دکهتا تها جی بهر کے نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا تها میرے بغیر تهے سب خواب اس کے ویران سے یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سی یہ بات سچ ہے میرا باپ..........!!!!!!

شعر

‏ سفنے دے وچ ماہی ملیا تے میں گل وچ پا لئیاں باہاں ڈردی ماری اکھ نہ کھولاں کدے فیر وچھر نہ جاواں

شعر

‏شوق یہ تھا محبت میں جلیں گے چُپ چاپ رنج یہ ہے کہ تماشہ نہ دِکھایا کوئی ْشہر میں ہمدمِ دیرِینہ بُہت تھے وقت پڑنے پہ میرے کام نہ آیا کوئی

غزل

نہاں ہے سب سے مِرا دردِ سینۂ بیتاب سوائے دِیدۂ  بےخوابِ انجُم و مہ تاب تمہیں تو خیر مِرے غم کدے سے جانا تھا کہاں گئیں مِری نیندیں کِدھر گئے مِرے خواب سفِینہ ڈُوب گیا لیکن اِس وقار کے ساتھ کہ سر اُٹھا نہ سکا پھر کہیں کوئی گرداب عجیب بارشِ نیساں ہوئی ہے اَب کے برس صدف صدف شب ِ وعدہ ہے اَور گُہر کم یاب حُدودِ مَےکدہ و مدرِسہ گِرا نہ سکے یہ مَحرمانِ کلیسا یہ عارفانِ کتاب وہاں بھی بزمِ خِرد میں ہزار پابندی یہاں بھی محفلِ رِنداں میں سینکڑوں آداب مَیں تشنہ کامِ غمِ آگہی کہاں جاؤں اِدھر شعُور کا صحرا اُدھر نظر کا سراب تُو اپنے جلوۂ عُریاں سے شرمسار نہ ہو یہی تمامِ نظارہ یہی کمالِ حجاب (مصطفیٰ زیدی) قبائے سَاز

نظم

جمع تم ہو نہیں سکتے، ہمیں منفی سے نفرت ہے تمہیں تقسیم کرتا ہوں ، تو حاصل کچھ نہیں آتا، کوئی قائدہ کوئی کُلیہ، نہ لاگُو تجھ پے ہو پائے، ضرب تجھ کو اگر دوِ تو، حسابوں میں خلل آئے، اکائی کو دھائی پر، میں نسبت دوں تو کیسے دوں نہ الجبرا سے لگتے ہو، نہ ہو ڈگری نکل آئے، عُمر یہ کٹ گئی میری، تجھے ہمدم سمجھنے میں، جو حل تیرا اگر نکلے، تو سب کچھ ہی اُلجھ جائے، صفر تھی ابتداء میری صفر ہی اب تلک تم ہو، صفر ضربِ صفر ہو تم نہ جس سے کچھ فرق آئے، —

نظم

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت درد کی لو کی طرح پیار کی خوشبو کی طرح بے وفا وعدوں کی دل داری کا انداز لیے تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح صبح کے ہاتھ میں خورشید کے ساغر کی طرح شاخ خوں رنگ تمنا میں گل تر کی طرح تم نہیں آؤ گے جب تب بھی تو تم آؤ گے یاد کی طرح دھڑکتے ہوئے دل کی صورت غم کے پیمانۂ سر شار کو چھلکاتے ہوئے برگ ہائے لب و رخسار کو مہکاتے ہوئے دل کے بجھتے ہوئے انگارے کو دہکاتے ہوئے زلف در زلف بکھر جائے گا پھر رات کا رنگ شب تنہائی میں بھی لطف ملاقات کا رنگ روز لائے گی صبا کوئے صباحت سے پیام روز گائے گی سحر تہنیت جشن فراق آؤ آنے کی کریں باتیں کہ تم آئے ہو اب تم آئے ہو تو میں کون سی شے نذر کرو کہ مرے پاس بجز مہر و وفا کچھ بھی نہیں ایک خوں گشتہ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں علہ سردار جعفری

 اَے دَورِ کور پرور

  اَے دَورِ کور پرور  اَب وُہ خوشی نہ وُہ غم ، خنداں ہیں اَب نہ گِریاں کِس کِس کو رو چُکے ہیں اَے حادثاتِ دوراں ترتیبِ زندگی نے دُنیا اُجاڑ دی ہے اَے چشمِ لا اُبالی اَے گیسُوئے پریشاں دِن رات کا تسلسل بے ربط ہو چکا ہے اب ہم ہیں اَور خموشی یا وحشتِ غزالاں یا دِن کو خاکِ صحرا یا شب کو دشت و دریا یا شغلِ جام و صہبا اَے جانِ مے فروشاں ٹُوٹا ہُؤا ہے بَربط سُونی پڑی ہے محفِل اَے رنگ و لحن و نغمہ اَے صدرِ بزمِ رنداں پُھولوں سے کھیلتا تھا، جن میں کبھی لڑکپن کانٹے چبھو رہی ہیں ، سینے میں اَب وہ گلیاں جیسے کِسی کی آہٹ ، راتوں کو مقبروں میں ہر بات درد آگیں ، ہر راگ دہشت افشاں یادوں کی چِلمنوں سے لمحے پُکارتے ہیں آسیب بن کے چھت پر اُترا ہے ماہِ تاباں سفّاک سانحوں کی روندی ہوئی قبائیں خُوں خوار حادثوں کے پھاڑے ہوئے گریباں جیسے کوئی کہانی رُوحوں کی انجمن میں ہر بات بےحقیقت ، ہر شے طِلسم افشاں ٹِیلوں کے دامنوں میں صحرائیوں کی قبریں قبروں کے حاشیوں پر سہما ہُوا چراغاں کِن ساعتوں سے کھیلیں کِن صُورتوں کو دیکھیں جُوئے بہارِ ساکِن شہرِ نگار ویراں کِتنی بصیرتوں کی ...

افسانہ

گھٹن زدہ راستہ" ــــــ افسانہ از "ہرمن ہیسے" جرمنی چٹان کے سیاہ سوراخ کے پیچھے ، تنگ گھاٹی کے آغاز پر مَیں کھڑا تھا اور پیچھے دیکھنے کے لیے مڑا۔ سورج خوشگوار سبز دنیا میں لہراتی ہوئی گھاس والے سبزہ زاروں میں چمک رہا تھا۔ اس نیم گرم اور خوبصورت ماحول میں قیام بڑا ہی خوشگوار تھا ، روح خوشبو اور نور میں تیرتے ہوئے ایک بھنورے کی مانند شانتی کے ساتھ گنگنا رہی تھی ۔ میں یقیناََ انجان تھا جو یہ سب کچھ چھوڑ کر پہاڑ کی چوٹی سر کرنا چاہتا تھا۔ میرے رہبر نے نرمی سے میرے بازو کو چھوا، مَیں نے بڑی مشکل سے دلکش نظارے سے اپنی نظریں ہٹائیں ۔ اب مَیں نے دیکھا کہ گھاٹی کی تاریکی میں فرق پڑچکا تھا اور دراڑ میں سے ایک سیاہ ندی پھوٹ رہی تھی اور اس کے کناروں پر زرد گھاس کے گچھے اُگے ہوئے تھے، اس کی تہہ میں رنگ رنگ کے پتھر تھے، زرد اور مردہ جیسے بہت عرصہ پہلے مری ہوئی مخلوق کی ہڈیاں۔ ’’ ہم آرام کریں گے ‘‘ مَیں نے رہبر کو کہا۔ وہ مشفقانہ انداز سے مسکرایا اور ہم نیچے بیٹھ گئے بڑی خوشگوار سی سردی تھی اور پہاڑی گذر گاہ کے بیچ میں ایک کومل سی ہوا چل رہی تھی۔ اس رستے پر جانا ایک بیہودہ بات ہے۔ اس...

نظم

یاد ہے تم کو میرے میز پہ بیٹھے بیٹھے سگریٹ کی ڈبیہ پہ تم نے چھوٹے سے اِک پودے کا ایک سکیچ بنایا تھا آ کر دیکھو اس پودے پر پھول آیا ہے!