Skip to main content

نظم

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم
آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت
درد کی لو کی طرح پیار کی خوشبو کی طرح
بے وفا وعدوں کی دل داری کا انداز لیے
تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے
رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح
صبح کے ہاتھ میں خورشید کے ساغر کی طرح
شاخ خوں رنگ تمنا میں گل تر کی طرح
تم نہیں آؤ گے جب تب بھی تو تم آؤ گے
یاد کی طرح دھڑکتے ہوئے دل کی صورت
غم کے پیمانۂ سر شار کو چھلکاتے ہوئے
برگ ہائے لب و رخسار کو مہکاتے ہوئے
دل کے بجھتے ہوئے انگارے کو دہکاتے ہوئے
زلف در زلف بکھر جائے گا پھر رات کا رنگ
شب تنہائی میں بھی لطف ملاقات کا رنگ
روز لائے گی صبا کوئے صباحت سے پیام
روز گائے گی سحر تہنیت جشن فراق
آؤ آنے کی کریں باتیں کہ تم آئے ہو
اب تم آئے ہو تو میں کون سی شے نذر کرو
کہ مرے پاس بجز مہر و وفا کچھ بھی نہیں
ایک خوں گشتہ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
علہ سردار جعفری

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔