Skip to main content

افسانہ

گھٹن زدہ راستہ" ــــــ افسانہ از "ہرمن ہیسے" جرمنی
چٹان کے سیاہ سوراخ کے پیچھے ، تنگ گھاٹی کے آغاز پر مَیں کھڑا تھا اور پیچھے دیکھنے کے لیے مڑا۔ سورج خوشگوار سبز دنیا میں لہراتی ہوئی گھاس والے سبزہ زاروں میں چمک رہا تھا۔ اس نیم گرم اور خوبصورت ماحول میں قیام بڑا ہی خوشگوار تھا ، روح خوشبو اور نور میں تیرتے ہوئے ایک بھنورے کی مانند شانتی کے ساتھ گنگنا رہی تھی ۔ میں یقیناََ انجان تھا جو یہ سب کچھ چھوڑ کر پہاڑ کی چوٹی سر کرنا چاہتا تھا۔ میرے رہبر نے نرمی سے میرے بازو کو چھوا، مَیں نے بڑی مشکل سے دلکش نظارے سے اپنی نظریں ہٹائیں ۔ اب مَیں نے دیکھا کہ گھاٹی کی تاریکی میں فرق پڑچکا تھا اور دراڑ میں سے ایک سیاہ ندی پھوٹ رہی تھی اور اس کے کناروں پر زرد گھاس کے گچھے اُگے ہوئے تھے، اس کی تہہ میں رنگ رنگ کے پتھر تھے، زرد اور مردہ جیسے بہت عرصہ پہلے مری ہوئی مخلوق کی ہڈیاں۔ ’’ ہم آرام کریں گے ‘‘ مَیں نے رہبر کو کہا۔ وہ مشفقانہ انداز سے مسکرایا اور ہم نیچے بیٹھ گئے بڑی خوشگوار سی سردی تھی اور پہاڑی گذر گاہ کے بیچ میں ایک کومل سی ہوا چل رہی تھی۔ اس رستے پر جانا ایک بیہودہ بات ہے۔ اس ناخوشگوار پہاڑی گذرگاہ میںخود کو گھسیٹنااور اس سرد ندی کو پھلانگنا اور اندھیرے میں ناہموار گھاٹی پر چڑھنا واقعتاََ ایک انتہائی ناخوشگوار اور بے ہودہ بات ہوگی۔ ’’رستہ بڑا خطرناک لگتا ہے‘‘ میں نے ذرا ہچکچاہٹ سے کام لیتے ہوئے کہا ۔ میرے دل کی بجھی ہوئی چنگاریوں میں سے ایکاایکی اُمید کے ایک شعلے نے جنم لیا، یہ اُمید کہ ہم اب بھی واپس جاسکیں اور میرا رہبر شاید اب بھی یہ سب کچھ چھوڑنے پر آمادہ ہوجائے ۔ ہاں ، ہاں، آخر کیوں نہیں ؟ کیا یہ جگہ انتہائی خوبصورت نہیں تھی؟ کیا یہاں زندگی بھرپور اور پر کیف نہیں تھی؟ اور کیا میں ایک انسان نہیں تھا؟ ایک ایسی معصوم اور عارضی مخلوق جسے دھوپ نیلگوں آسمان کے منظر اور پھولوں سے لطف اندوزہونے کا پورا حق حاصل تھا؟ مَیں وہیں قیام کرنا چاہتا تھا جہاں پر تھا ۔ مجھے اُن کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، میری ساری زندگی اطمینان اور آسودگی میں بسر ہوگی اگر مجھے اس وادی میں قیام کی اجازت دے دی جائے۔ مَیں پہلے بھی سردی سے کانپ رہا تھا ۔ یہاں مزید رکنا محال ہوگیا تھا رہبر نے کہا ’’ تم سردی سے کانپ رہے ہو، ہمیں چلنا چاہیے‘‘۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے مسکرا کر دیکھنے لگا۔ اس کی مسکرہٹ میں طنز تھا نہ ہمدردی سختی تھی نہ نرمی۔ اس میں اگر کچھ تھا تو وہ آگہی اور عرفان تھا اس مسکراہٹ نے کہا ’’میں تمہیں جانتا ہوں میں تمہارے خوف اور محسوس کرنے کے انداز سے واقف ہوں اور میں تمہاری کل اور پرسوں کی شیخیاں نہیں بھولا ، میں تمہاری روح کے حیلوں بہانوں سے پہلے ہی آگاہ ہوجاتا ہوں اس سے پہلے کہ وہ عمل کرے۔ اس مسکراہٹ کے ساتھ رہبر نے میری طرف دیکھا اور سیاہ پتھریلے شگاف کو پھلانگنا شروع کیا اور مَیں نے اس کے لیے نفرت اور محبت اُس طرح محسوس کی جیسے ایک سزا یافتہ شخص اپنی گردن کے اوپر تلوار سے نفرت اور محبت کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مَیں نے اس کے علم، قائدانہ صلاحیت ، آسودگی اور اس کے اندر چھوٹی چھوٹی کمزوریوں کے نہ ہونے سے نفرت کی اور پھر مَیںنے اپنے اندر ہر اس چیز سے نفرت کی جو اس کے ساتھ ہم آہنگ تھی اسے پسند کرتی تھی اس کی پیروی کرنا چاہتی تھی اور اس جیسا بننا چاہتی تھی۔ وہ پہلے ہی سیاہ ندی سے گزر کر پتھروں پر چلتے ہوئے کافی دور جا چکا تھا اور نظروں سے اوجھل ہونے والا تھا۔ ’’رکو‘‘ مَیں چلایا ، اتنا خوفزدہ تھا کہ مَیں نے اس سمے سوچا کہ اگر یہ کوئی خواب ہوتا تو خوف کی شدت سے چکنا چُور ہو جاتا اور مَیں بیدار ہوجاتا ’’رکو‘‘ میںپھر چلایا ’’ مَیں یہ نہیں کرسکتا، مجھ میں ہمت نہیں ہے‘‘۔ رہبر رک گیا اور بغیر برا بھلا کہے خاموشی سے مجھے دیکھنے لگا۔ لیکن اپنے ناقابل برداشت علم اور پیش بینی اور صورت حال کا پہلے سے ادراک کرلینے کی خوفناک صلاحیت کے ساتھ۔ ’’کیا تم چاہتے ہو کہ ہم واپس چلے جائیں؟ اس نے پوچھا اور ابھی اس نے آخری لفظ ادا نہیں کیا تھا کہ میرے اندر کی بغاوت جاگ اٹھی اور سوچا کہ مَیں ’’نہیں ‘‘ کہوں گا، مجھے ’’نہیں ‘‘کہنا ہوگا۔ لیکن اسی لمحے میرے اندر کوئی جانی پہچانی سی آواز آئی ’’ہاں کہو، ہاں کہو‘‘ مَیں ہاں کہنا چاہتا تھا اگرچہ میں جانتا تھا کہ ایسا نہیں کرسکتا پھر رہبر نے اپنے ہاتھ سے واپس وادی کی طرف اشارہ کیا اور مَیں ایک بار پھر اس خوبصورت اور دلکش خطے کی جانب مڑا۔ اور اب کے بار جو کچھ میری آنکھوںنے دیکھا ، وہ انتہائی تکلیف دہ بات تھی۔ مَیں نے اپنی محبوب وادیوں اور میدانوں کو ایک بے چمک سورج کے ساتھ ماند اور زرد ہوتے دیکھا۔ رنگ انتہائی بھدے معلوم ہورہے تھے اور ایک دوسرے سے میل نہیں کھا رہے تھے، سائے زنگ آلود اور سیاہ لگ رہے تھے اور ان کا طلسم ٹوٹ چکا تھا۔
حسن اور خوشبو غائب ہوچکے تھے دل ہر چیز سے اچاٹ ہوچکا تھا۔ ایک متلی کی کیفیت طاری تھی۔ اوہ!مَیں اس عمل سے اچھی طرح واقف تھا ، مَیں رہبر کے اس خوفناک حربے سے کتنا خوفزدہ تھا اور اس سے کتنی نفرت کرتا تھا۔ اسکا یہ حربہ کہ وہ ہر اس شے کو جو مجھے محبوب اور دلکش لگتی ، مسخ کردیتا اور اس میں سے رس اور روح کھینچ لیتا، خوشبوؤں کو بدبو اور رنگوں کو بدنما بنا دیتا ۔ اوہ!مجھے اس سب کاعلم تھا۔ جو شراب تھی ۔ وہ کل تھی ۔ اور جو آج ہے وہ سرکہ ہے اور سرکہ دوبارہ شراب نہیں بن سکتا ، کبھی نہیں ۔ مَیں رہبر کی پیروی کرتے ہوئے خاموش اور اداس تھا ۔ وہ یقیناََ ہمیشہ کی طرح درست تھا۔ یہی غنیمت تھا کہ وہ میرے ساتھ موجود تھا کیونکہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوا کہ وہ اچانک غائب ہوجاتا اور مجھے تنہا چھوڑ دیتا۔ مَیں تنہا ہوتا اپنے دل میں اس آواز کے ساتھ جس میں وہ اپنے آپ کو تبدیل کردیتا تھا۔ خاموش تھا لیکن میرا دل بے قراری سے چلایا، میرے ساتھ صرف رہو اور مَیں یقیناََتمہاری پیروی کرونگا۔‘‘ ندی کے پتھروں پر خوفناک حد تک پھسلن تھی۔ گیلے ،پھسلنے والے پتھروں پر آہستہ آہستہ قدم اٹھانا ایک چکرا دینے والا عمل تھا۔ ساتھ ہی ندی کا راستہ زیادہ ڈھلوانی ہونے لگا اور چٹان کی سیاہ دیواریں ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں اور ہر موڑ یہ بغض کرتا دکھائی دیتا کہ وہ ہماری واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کردے گا۔ ابھاروں والی زرد چٹانوں کے اوپر پانی کی کیچڑ کی تہہ تھی ۔ ہمارے سر پر کوئی بادل یا نیلا آسمان نہیں تھا ۔ خوف اور غصے سے آنکھیں بند کرکے رہبر کے پیچھے چلتا گیا۔ چلتا گیا۔ تب مَیں نے راستے کے ساتھ ایک سیاہ پھول اُگا دیکھا۔ مخملی سیاہ ۔ اس پھول سے اداسی ٹپک رہی تھی۔ یہ حسین تھا اور مجھ سے دوستانہ انداز سے مخاطب تھا لیکن میرا رہبر تیز تیز چلتا رہا اور مجھے لگا کہ اگر ایک لمحے کے لیے بھی توقف کیا اور اگر اس اداس مخملی آنکھ پر ایک بار اور نگاہ ڈالی تو میری اداسی اور یاسیت ناقابل برداشت ہو جائیگی اور میری روح لا یعنیت اور پاگل پن کے چنگل میں پھنس جائیگی۔ مَیں گیلا اور گندہ ہونے کے باوجود رینگتا رہا اور جب دیواریں ایک دوسرے کے قریب آتی تو میرے رہبر نے ڈھارس اور دلجوئی کا وہ پرانا گیت الاپنا شروع کیا، اپنی صاف اور مستحکم آواز میں وہ ہر قدم پر گا رہا تھا۔مَیں جانتا تھا کہ وہ میری حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہے، مجھے مہمیز کرنا چاہتا اور اس گھناؤنی محنت اور اس جہنمی سفر کی ناامیدی سے میری توجہ ہٹانا چاہتا ہے ۔مَیں چاہتا تھا کہ وہ میرے اس گیت میں شریک ہونے کا منتظررہے لیکن ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔مَیں اسے اس جیت کا موقع نہیں دوں گا۔ کیا مَیںاس وقت گانے کے موڈ میں تھا؟ اور کیا مَیں ایک انسان نہیں تھا ؟ ایک سادہ اور بے چارہ شخص جسے اُسے دل کی آرزوؤں کے برعکس ایسے حالات اور اعمال کی طرف دھکیل دیا گیا ہے ۔کیا ہر گُلِ وفااور گل سرخ نے مجھے وہیں ٹھہر جانے کی دعوت نہیں دی تھی؟ جہاں وہ کھلنے اور مرجھانے کے لیے ندی کے ساتھ ساتھ اُگے ہوئے تھے؟ رہبر لگاتار گاتا رہا ۔ اوہ!کیا مَیں کبھی واپس جاسکوں گا، لیکن اپنے رہبر کی ماہرانہ مدد سے مَیں اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے دیواروں پر چڑھتا اور پُرخطر گھاٹیوں کو عبور کرتا رہا۔ آنسو میرے گلے میںجلتے رہے لیکن رونے کی ہمت نہ ہوئی۔ اور اس طرح نہ چاہتے ہوئے رہبر کے گیت میں شریک ہوا۔ اگرچہ میری سُر اور لَے وہی تھی لیکن الفاظ مختلف تھے ۔مگر مجھے محسوس ہوا کہ بیک وقت گانا اور اوپر چڑھنا سہل نہیں۔ جلد ہی میرا سانس پھول گیا اور خاموش ہونے پر مجبور ہوگیا۔ لیکن وہ بے تکان گائے چلا جارہا تھا اور بالآخر اس نے مجھے مجبورکر دیا کہ مَیں اسی کے الفاظ میں گیت گاؤں ۔اب چڑھائی آسان تھی۔ تھکاوٹ غائب ہوچکی تھی اور میرے اندر سفر جاری رکھنے کی امنگ نے جنم لے لیا تھا۔ پھرمَیں نے اپنے اندر روشنی محسوس کی اور جیسے جیسے یہ بڑھتی گئی چٹان خشک اور مہربان ہوتی چلی گئی یہ پھسلتے ہوئے پاؤں کی مدد کرتی ، پھر آہستہ آہستہ نیلا اور صاف آسمان نمودار ہوا۔ یہ پہاڑوں کے درمیان نیلی ندی کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اپنے عزم کو زیادہ پختہ پایا اور آسان ہوتے ہوئے رستے پر بڑھتا چلا گیا اب میرے لیے رہبر کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا مشکل نہ تھا، اور پھر بالکل غیر متوقع طور پر مَیں نے اپنے اوپر پہاڑ کی چوٹی دیکھی۔ یہ بہت چمکدار اور ڈھلوانی تھی۔ چوٹی سے تھوڑا نیچے ہم تنگ شگاف سے رینگتے ہوئے باہر نکلے سورج کی روشنی سے میری آنکھیں چندھیا گئیں اور جب دوبارہ آنکھیں کھولیں تو میرے گھٹنے خوف سے لرز گئے کیونکہ خود کو چٹان کے ایک کنارے پر بغیر کسی سہارے کے کھڑا پایا۔ میرے ارد گرد لامتناہی جگہ اور خوفناک نیلی گہرایاں تھی۔ ہمارے اوپر صرف تنگ چوٹی سیڑھی کی شکل میں موجود تھی۔
ہم اس آخری خوفناک مرحلے کو عبور کرنے کے لیے دونوں ہاتھوں اور پاؤں کے بل چڑھتے گئے ۔ہمارے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔اور پھر ہم چوٹی پر کھڑے تھے۔ وہ ایک عجیب پہاڑ تھا اور اس کی عجیب چوٹی تھی ہم پتھرکی دیواروں پر چڑھتے ہوئے اوپر پہنچ چکے تھے اور یہاں اوپر پتھروں پر ایک درخت اُگا ہوا تھا جسکی کئی چھوٹی چھوٹی مضبوط شاخیں تھی۔ یہ درخت ناقابل فہم حد تک تنہا عجیب اور مضبوط تھا۔ اس کی شاخوں کے درمیان میں سے نیلا ٹھنڈا آسمان جھانک رہا تھا۔ اوراس درخت کے اوپر ایک کالے رنگ کا پرندہ بیٹھا مسلسل گائے جارہا تھا۔ پرندہ نغمہ جاودانی گارہا تھا۔ وہ اپنی سیاہ آنکھ سے ہمیں دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھ سیا ہ نگینہ لگ رہی تھی اس کی نظر اور اس کے گیت کی تاب لانا بہت مشکل تھا ۔ سب سے خوفناک بات اس ساری جگہ کی مکمل تنہائی تھی۔ یہاں مرنے میں مسرت تھی اور جینے میں دُکھ ۔ فوری طور پر کوئی واقعہ رونما ہونا چاہیے ورنہ ہم اور دنیا محض خوف کی وجہ سے پتھر کے ہو جائیں گے۔ ایک جست کے ساتھ میرے رہبر نے نیلے آسمان میں چھلانگ لگا دی اور پرواز کرگیا۔ اب تقدیر کی لہر اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی تھی ۔ میں چھلانگ لگا رہا تھا اور پرواز کررہا تھا، ایک سرد گرداب میں لپٹا ہوا تھا۔ مَیں ایک پُرمسرت کیف میں ابدیت سے ماں کے سینے تک سفر کررہا تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔