Skip to main content

Posts

Showing posts from January, 2017

سنڌ جون ذاتون

اَپِيل (قبيلائي جنگين جي موضوع تي لکيل) هي جتوئي، اُڄڻ ۽ ناريجا، سامٽيا ۽ سچار ساريجا، آمڙا، ڄامڙا ۽ جاڙيجا، جوکِيا، جاکرا ۽ جوڻيجا، چنڊ ۽ چانگ، سومرا، سورا، هيءُ لاسي، م...

غزل

عارف امام __________________________________ آسماں ہے، نہ زمیں ہے، نہ خلا، کچھ بھی نہیں عالمِ ہست نہونے کے سوا کچھ بھی نہیں میں یہ سمجھا مرے ہونے سے بہت کچھ ھوگا میں یہ جانا مرے ہونے سے ہوأ کچھ بھی نہیں ...

گناہ گار

گناہ گار اے سوگوار! یاد بھی ہے تجھ کو یا نہیں وہ رات، جب حیات کی زلفیں دراز تھیں جب روشنی کے نرم کنول تھے بجھے بجھے جب ساعتِ ابَد کی لویں نیم باز تھیں جب ساری زندگی کی عبادت گذا...

وہابی انگریز

وہابی انگریز ..... ہمارے ایک دور پار کے چچا بہت عرصہ غیر ملکی کنسٹریکشن کمپنی میں رہے .... طبیعت میں بذلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری تھی- اپنی یاداشتوں کے سمندر سے روز ایک نیا موتی نکال لاتے اور محفل کو باغ وبہار کر دیتے تھے- ایک بار فرمانے لگے کہ 1979ء میں ہم مظفرگڑھ کے قریب کسی پراجیکٹ پر کام کر ریے تھے- ہمارا انچارج ایک انگریز تھا جو قدرے سخت مزاج واقع ہوا تھا- ایک سرد اور دھند آلود صبح جب میں سائٹ پر پہنچا تو بلڈوزر آپریٹر اللہ بخش سخت پریشان کھڑا تھا .... مجھے دیکھتے ہی وہ میری طرف لپکا اور ہانپتے کانپتے اطلاع دی کہ " بابا سائیں" ناراض ہو گئے ہیں اور میرا بلڈوزر بند کر دیا ہے- خدا کےلئے میری سفارش کر دو- میں نے حیرت سے پوچھا کونسے بابا سائیں ؟ وہ بولا قبر والا بابا سائیں ، بہت بڑی سرکار ہیں- پھر وہ مجھے ساتھ لئے جنگلی جھاڑیوں کے بیچ بنی ایک چھوٹی سی ٹیکری پر لے گیا جو قدرے قبر سے مشابہ تھی- اللہ بخش کے مطابق آج صبح کوشش کے باوجود اس کا بلڈوزر اسٹارٹ نہ ہو سکا تو اچانک اسے یہ قبر نظر آئ .... خیر مشورہ ہوا کہ مسٹر اسٹیفن سے بات کر کے سڑک کی سمت تبدیل کرائ جائے ...

نظم

ہوائیں سرد ہو جائیں یا لہجے برف ہو جائیں ہم اس کی یاد کی چادر کو خود پہ تان لیتے ہیں سنو! درویش لوگوں کی کوئی دنیا نہیں ہوتی ملے جو خاک رستے میں اسی کو چھان لیتے ہیں اگر وہ روٹھ جاتا ہے ہماری جان نکلتی ہے یہ سانسیں جاری رکھنے کو ہم اس کی مان لیتے ہیں۔

غزل

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں   کیسے خوش طبع ہیں اس شہر دل آزار کے لوگ موج خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں   اہل دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو صاحبان دل شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں   خاک اڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن اول صبح کے غم آخر شب پوچھتے ہیں   ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں   یہی مجبور یہی مہر بلب بے آواز پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں   کرم مسند و منبر کہ اب ارباب حکم ظلم کر چکتے ہیں تب مرضی رب پوچھتے ہیں

نظم

دِیوانوں پہ کیا گُذری صِرف دو چار برس قبل یُونہی برسرِ راہ مِل گیا ہوتا اگر کوئی اشارا ہم کو کِسی خاموش تکلّم کا سہارا ہم کو یہی دُزدیدہ تبسّم ، یہی چہرے کی پُکار یہی وعدہ ، یہی ایما ، یہی مبہم اِقرار ہم اِسے عرش کی سرحَد سے مِلانے چلتے پُھول کہتے کبھی سِنگیت بنانے چلتے خانقاہوں کی طرف دِیپ جلانے چلتے صِرف دو چار برس قبل! مگر اب یہ ہے کہ تِری نرم نِگاہی کا اِشارا پا کر کبھی بِستر کبھی کمرے کا خیال آتا ہے زِندگی جِسم کی خواہش کے سوا کُچھ بھی نہیں خُون میں خُون کی گردش کے سوا کچُھ بھی نہیں (مصطفیٰ زیدی) ​