Skip to main content

غزل

عارف امام
__________________________________
آسماں ہے، نہ زمیں ہے، نہ خلا، کچھ بھی نہیں
عالمِ ہست نہونے کے سوا کچھ بھی نہیں

میں یہ سمجھا مرے ہونے سے بہت کچھ ھوگا
میں یہ جانا مرے ہونے سے ہوأ کچھ بھی نہیں

میں تو پہلے ہی بدن اپنا اُتار آیا تھا
عشق کی آگ میں کُودا تو جلا کچھ بھی نہیں

غلغلہ تھا مرے پُرکھوں کی وراثت کا بہت
ہاں خزانہ تھا! مگر اس میں بچا کچھ بھی نہیں

سادے کاغذ پہ بہت رنگ انڈیلے لیکن
اپنی تصویر بنانے سے بنا کچھ بھی نہیں

ہے کسی عکس کی غفلت سے تماشہ ورنہ
دہر کے آئنہ خانے میں دھرا کچھ بھی نہیں

کوئی دھوکہ ہے مری بے سروسامانی بھی
یا تو سب کچھ ہی مرے پاس ہے یا کچھ بھی نہیں

اُس کے دیکھے سے نشہ، بات جو کرلے تو شفا
اپنے پلّے میں تو دارو نہ دوا کچھ بھی نہیں

اُس علاقے میں کوئی رات گزار آیا ہے
جس علاقے میں بجز ذاتِ خدا کچھ بھی نہیں

یہ الگ بات کہ دریا کو ملی موجِ دوام
ورنہ مشکیزے کو دریا سے ملا کچھ بھی نہیں

میں نے تقریر سے شمشیر کا منہ توڑ دیا
تم تو کہتے تھے مرے بس میں رہا کچھ بھی نہیں

عارف امام

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔