Skip to main content

وہابی انگریز

وہابی انگریز .....
ہمارے ایک دور پار کے چچا بہت عرصہ غیر ملکی کنسٹریکشن کمپنی میں رہے .... طبیعت میں بذلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری تھی- اپنی یاداشتوں کے سمندر سے روز ایک نیا موتی نکال لاتے اور محفل کو باغ وبہار کر دیتے تھے-
ایک بار فرمانے لگے کہ 1979ء میں ہم مظفرگڑھ کے قریب کسی پراجیکٹ پر کام کر ریے تھے- ہمارا انچارج ایک انگریز تھا جو قدرے سخت مزاج واقع ہوا تھا-
ایک سرد اور دھند آلود صبح جب میں سائٹ پر پہنچا تو بلڈوزر آپریٹر اللہ بخش سخت پریشان کھڑا تھا ....
مجھے دیکھتے ہی وہ میری طرف لپکا اور ہانپتے کانپتے اطلاع دی کہ " بابا سائیں" ناراض ہو گئے ہیں اور میرا بلڈوزر بند کر دیا ہے- خدا کےلئے میری سفارش کر دو-
میں نے حیرت سے پوچھا کونسے بابا سائیں ؟
وہ بولا قبر والا بابا سائیں ، بہت بڑی سرکار ہیں-
پھر وہ مجھے ساتھ لئے جنگلی جھاڑیوں کے بیچ بنی ایک چھوٹی سی ٹیکری پر لے گیا جو قدرے قبر سے مشابہ تھی-
اللہ بخش کے مطابق آج صبح کوشش کے باوجود اس کا بلڈوزر اسٹارٹ نہ ہو سکا تو اچانک اسے یہ قبر نظر آئ ....
خیر مشورہ ہوا کہ مسٹر اسٹیفن سے بات کر کے سڑک کی سمت تبدیل کرائ جائے ..... یہ نہ ہو کہ بابا ہم سب کو ساڑ کر سواہ کر دے ....
وہ بولا سائیں تم خود بات کرو ، ہماری تو نہ بابا سائیں سننے کو تیار ہے نہ ہی اسٹیفن سائیں !!
میں بھاگا بھاگا مسٹر اسٹیفن کے آفس پہنچا اور ماجرا سنایا .... وہ فون پر بزی تھے .... ایک لمحے ہولڈ کہ کر میری بات سنی ، پھر سرد لہجے میں بولے
" بُل شِٹ !!! "
میں سنی ان سنی کر کے کھڑا رہا- اس کے بعد مسٹر اسٹیفن فون پر بزی ہوگئے .... اور میں استغفار پڑھتا ہوا واپس ہو لیا-
واپس سائٹ پر آکر میں نے ٹیکری والی سرکار کو سجدہ کیا ، پاؤں چومے اور وعدہ کیا کہ ایک بار بلڈوزر اسٹارٹ کرنے دو ، ہم ریورس کر لیں گے- اور دوبارہ ادھر کا رخ بھی نہ کریں گے- اس کے بعد میں نے خود بلڈوزر اسٹارٹ کرنے کی بہت کوشش کی ... لیکن سائیں بہت تگڑا تھا اور بلڈوزر بہت کمزور !!!
چنانچہ ایک بار پھر جوتے چٹخاتا مسٹر اسٹیفن کے سامنے جا کھڑا ہوا ....
"سر وُہ ...... بابا " میں نے بمشکل کہا-
انہوں نے غصے سے فون کریڈل پر پٹخا ، گودام سے ایک پرانا کپڑا ، لکڑی کا ڈنڈا اور پھاوڑہ لیا اور زیرِلب انگریزی میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے میرے ساتھ سائٹ کی طرف چل پڑے-
میں ڈرا کہ یا تو آپریٹر اللہ بخش کی خیر نہیں یا بلڈوزر کو آگ لگانے کا ارادہ ہے- بلڈوزر کے پاس آکر انہوں نے کپڑا ڈنڈے کے ساتھ باندھ کر ٹینکی سے تھوڑا ڈیزل نکالا ....اور مشعل جلا کر بلڈوزر کا انجن گرمانے لگے .... اس کے بعد چابی لے کر بلڈوزر پر چڑھے اور پہلی ہی اگنیشن میں اسٹارٹ کر دیا....
میں اور اللہ بخش ایک دوسرے کی طرف حیرت اور شرمندگی سے دیکھنے لگے- اس کے بعد صاحب نے چابی اللہ بخش کی طرف پھینکی ... پھر بیلچہ لے کر قبر کی اینٹ سے اینٹ بجانے لگے-
ساتھ ساتھ وہ بڑبڑا بھی رہے تھے....
روڈ فار پیپلز .... ناٹ فار ڈیڈ باڈیز ... انڈراسٹینڈ یو بابا بلیک شیپ !!!!!"
میں اور عبدالکریم اس دن شام تک مسٹر اسٹیفن کے سڑ کر سواہ ہونے کا انتظار کرتے رہے ...... لیکن وہ منحوس اگلے روز بھی ہشاش بشاش ہی دکھائ دیا ، وہی مونہہ میں ادھ بجھا سگار اور وہی ٹیڑی گندی ہیٹ !!
پروجیکٹ ختم ہوتے ہی مسٹر اسٹیفن تو ولایت چلے گئے ، مجھے اور اللہ بخش کو ایک نئ ٹیکری مل گئ اور ہم نے اس پر " بابا بلڈوزر شاہ " کا جھنڈا لہرا کر ہی چھوڑا-
ایک روز اللہ بخش بولا .....
" ملک سائیں ..... سمجھ نہیں آتی کہ بابا نے اسٹیفن گستاخ کو ساڑ کر سواہ کیوں نہیں کیا تھا ؟؟.."
میں نے ایک ٹھنڈی سانس لیکر کہا....." اللہ بخش !!! بابے صرف انہی کو ساڑ کر سواہ کرتے ہیں جو انہیں مانتے ہوں .... اسٹیفن تو وہابی قسم کا انگریز تھا ... اور وہابی تو بابوں کو مانتے ہی نہیں !!! "

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔