Skip to main content

کینسر کا علاج

کینسر کی بیماری بہت موذی اور تکلیف دہ ہے۔ آئیے اس سے متعلق چند آسان نسخے بیان کرتا ہوں:

(1)بین الاقوامی کینسر کے علاج کی دوائیں بنانے والے کبھی یہ نہیں بتاتے کہ کینسر محض وٹامن B-17کی کمی کا نام ہے اور بین الاقوامی سطح پر ایسے ٹانک بنانا ممنوع ہیں جو B-17فراہم کرتے ہوں۔ اللہ پاک نے بادام میں B-17کی اچھی مقدار رکھی ہے۔ اگر آپ روزانہ بادام کے 7,6دانے کھالیں تو B-17کی کمی کی بیماری نہیں ہوتی ہے۔ بادام کھائیے اور کینسر سے محفوظ رہئے۔

(2)چقندر، گاجر، سیب اور ایک لیموں کا عرق اگر صبح شام آپ استعمال کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کو کینسر سے نجات دلاتا ہے اور محفوظ بھی رکھتا ہے۔

(3)کریلے کے تین چار چھلے کاٹیں، کپ میں ڈال کر گرم پانی اس پر ڈالیں، چند منٹ رہنے دیں اور پھر یہ پانی دو تین مرتبہ پی لیں، ان شاء اللہ کینسر کے سیل ختم ہو جائیں گے۔

(4)ناریل (کھوپرا) کے چند باریک ٹکڑے کاٹیں اور اس پر گرم پانی ڈال دیں۔ کچھ وقت کے بعد پانی سفید ہو جائے گا، اس کے پینے سے کینسر کے سیل ختم ہوجاتے ہیں۔

(5)ایک لیموں لے کر اس کا عرق نکالیں۔ اس میں نیم گرم پانی ڈالیں، اگر شوگر کی بیماری نہیں ہے تو اس میں شہد ملا کر تین مرتبہ دن میں استعمال کریں۔ ان شاء اللہ آرام ملے گا۔

(6)سرسوں کا ساگ کھانے سے کینسر کا خطرہ نہیں رہتا۔

(7)تحقیق کے مطابق مختلف اقسام کے کینسر سے بچنے کیلئے درج ذیل اشیا کا استعمال بھی مفید پایا گیا ہے۔ بروکلی، گاجر، پھلیاں لوبیا، بیریز، دارچینی، خشک میوہ جات یعنی بادام، مغز، اخروٹ کی گری وغیرہ، روغن زیتون، ہلدی، سٹرس فروٹ، اَلسی کے بیج، ٹماٹر وغیرہ۔

(8)ناصر دواخانہ 047-6211434سے سچی بوٹی کی گولیاں خریدیں اور چار صبح چاردوپہر چار شام کو پانی سے لیں۔ اس سے کیموتھراپی وغیرہ کا اثر یعنی بال گرنا، ہوموگلوبین کم ہونا، نہیں ہوتا۔یہ آزمایا ہوا نسخہ ہے۔

اللہ پاک ان تمام مریضوں کو جن کو یہ موذی مرض لاحق ہے، مکمل شفا دے، تندرست رکھے اور عمر دراز کرے۔ آمین

ڈاکٹر عبدالقدیر خان (روزنامہ جنگ 01 جولائی 2019)

https://jang.com.pk/news/654745-dr-abdul-qadeer-khan-column-1-7-2019

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔