غزل
کمالِ دستِ ہُنر سے اُسے سہارا جائے
بَشَر کو بحرِ حوادث میں جب اتارا جائے
وہ جس سے حسنِ تخیل میں ضَوفشانی ہے
کبھی نہ دُور مری آنکھ سے ستارا جائے
میں ناخُدا کی بد اندیشیوں سے ڈرتا ہوں
نہ وسوسوں میں کہیں ہاتھ سے کنارا جائے
کبھی تو وادیٔ دل میں بھی روشنی پھوٹے
کوئی تو منظرِ خوش آنکھ سے گزارا جائے
یہ بے نیازیٔ سُود و زیاں غنیمت ہے
کہیں تو اپنے مقدر سے بھی خسارا جائے
ریاضؔ مزرعِ ہستی کو پھر ضرورت ہے
جگر کے خون سے پھر سے اُسے سنوارا جائے
سید ریاض حسین زیدی
Comments
Post a Comment