Skip to main content

تو میری شمع دل و دیدہ

تُو مری شمعِ دلِ و دیدہ

وہ کوئی رقص کا انداز ہو یا گیت کی تان
میرے دل میں تری آواز ابھر آتی ہے
تیرے ہی بال بکھر جاتے ہیں دیواروں پر
تیری ہی شکل کتابوں میں نظر آتی ہے

شہر ہے یا کسی عیّار کا پُرہول طلسم
تُو ہے یا شہرِ طلسمات کی ننھی سی پری
ہر طرف سیلِ رواں، بس کا دھواں، ریل کا شور
ہر طرف تیرا خُنک گام، تری جلوہ گری

ایک اک رگ تری آہٹ کے لیے چشمِ براہ
جیسے تُو آئے گی بس کوئی گھڑی جاتی ہے
تیری پرچھائیں ہے یا تُو ہے مرے کمرے میں
بلب کی تیز چمک ماند پڑی جاتی ہے

ٹینک سڑکوں پہ چلیں جیپ کے آگے پیچھے
دن گذرتا ہے ترا سایۂ ابرو لے کر
فلسفے تُند حقائق کی شعائیں ڈالیں
شام آتی ہے تری آنکھ کا جادو لے کر
لنگر انداز ہوں ساحل پہ مشینوں کے جہاز
رات ڈھل جاتی ہے مہکے ہوئے گیسو لے کر
میں اسی گیس کی دنیا میں تعفّن کے قریب
شعر لکھتا ہوں ترے جسم کی خوشبو لے کر

مصطفیٰ زیدی

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔