Skip to main content

Posts

Showing posts from November, 2021

نظم

وہ کہتی ہے سنوجاناں! مجھے محسوس ہوتا ہے نئے اس سال میں اپنے ستارے مل ہی جائیں گے میں کہتا ہوں! محبت کی طبیعت خوش گمانی ہے یہ پت جھڑ میں بھی پیڑوں کے ہرے پتے بناتی ہے وہ کہتی ہے بہت بوجھل ، بہت گہری اُداسی ہے نہ جانےجنوری کیوں درد میں لپٹا ہی ملتا ہے میں کہتا ہوں کہ جس دل میں محبت ڈال دے ڈیرے وہاں پر بس اُداسی، بے کلی اور درد اُگتا ہے وہ کہتی ہے! تمہیں تو یہ محبت شاد رکھتی تھی تو پھر آنکھوں میں، لہجے میں نمی کیوں آج لگتی ہے میں کہتا ہوں! ارے پگلی تمہیں تو علم ہی ہو گا بہت زیادہ خوشی میں بھی تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

محبت تم سے نفرت ہے

چلو ہم پاس رکھ لیں گے  تیری باتیں تیری یادیں    مُحبّت تیرے صَدقے میں ملتی ہیں یہی سوغاتیں  ہنسیں گے خود سے مل کر ہم  گلے خود کو لگائیں گے  تجھے ہم یاد کرلیں گے  جب تجھے بھول جائیں گے     چلو منزل سے پہلے ہم  یہ رستہ موڑ جاتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں

چھالے کہاپڑے

اچھا تو پھر بتائیے کیسا رہا سفر ؟؟؟ ٹوٹی کہاں پہ جوتیاں ؟ چھالے کہاں پڑے ؟ کس موڑ پہ جناب کے ہمت نے دم دیا؟؟؟ صاحب کو اپنی جان کے لالے کہا پڑے ؟؟؟

تمہیں کیا لکھوں

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﺩﻭﺳﺖ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﮨﻤﺪﻡ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﻏﻤﮕﺴﺎﺭ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﯾﺎ , ﭘﯿﺎﺭ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﺩﻝ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ... ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮑﺠﺎ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﮎ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﻟﮑﮭﻮﮞ  ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻟﮑﮭﻮﮞ.....!! 

اسے کہنا محبت ہے

ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻟﮑﮭﻮﮞ ؟ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺭﻭﭨﮫ ﮐﺮ،ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ،ﻧﻔﺮﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﭦ ﺳﮯ ﯾﺎ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺣﯿﻠﻮﮞ ﺑﮩﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﻭﮦ ﻣﺎﻧﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮯ ﺑﺲ ﺍُﺳﮯ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺍُﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ

کتنی محبت ہے

میں جب بھی اس سے کہتا ہوں ! مجھے تم سے محبت ہے... ! وہ مجھ سے پوچھتی ہے یہ بتاؤ نا.....!    کہ کتنی ہے؟ میں بازو کھول کر کہتا ہوں ! زمیں سے آسماں تک ہے فلک کی کہکشاں تک ہے میرے دل سے تیرے دل تک مکاں سے لا مکاں تک ہے وہ کہتی ھے، کہ بس اتنی! میں کہتا ہوں....! یہ بہتی ہے لہو کی تیز حدت میں میرے جذبوں کی شدت میں تیرے امکاں کی حسرت کی میرے وجداں کی جدت میں وہ کہتی ہے ....! نہیں کافی ابھی تک یہ ! میں کہتا ہوں...! ہوا کی سرسراہٹ ہے تیرے قدموں کی آہٹ ہے کسی شب کے کسی پل میں مجسم کھنکھناہٹ ہے وہ کہتی ہے یہ کیسے فیل (محسوس) ہوتی ہے؟ میں کہتا ہوں ! چمکتی دھوپ کی مانند بلوریں سوت کی مانند صبح کی شبنمی رت میں لہکتی کوک کی مانند وہ کہتی ہے ....! مجھے بہکاوے دیتے ہو؟ مجھے سچ سچ بتاؤ نا مجھے تم چاہتے بھی ہو یا بس بہلاوے دیتے ہو؟ میں کہتا ہوں ! مجھے تم سے محبت ہے کہ جیسے پنچھی پر کھولے ہوا کے دوش پر جھولے کہ جیسے برف پگھلے اور جیسے موتیا پھولے ! وہ کہتی ھے....! مجھے الو بناتے ہو! مجھے  کیوں اتنا چاہتے ہو؟ میں اس سے پوچھتا ہوں اب تمھیں مجھ سے محبت ہے؟ بتاؤ نا کہ، کتنی ہے وہ بازو کھول کے مج...

نظم

تمہارا  نرم و نازک ہاتھ ہو  گر میرے ہاتھوں میں  تو میں سمجھوں کہ جیسے دو جہاں ہوں میری مُٹھی میں تمہارا قُرب ہو  تو مشکلیں کافور ہو جائیں یہ اندھے اور کالے راستے پُر نُور ہو جائیں تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں مل جائے  تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا یے اُٹھا لو اپنا سایا تو میری اوقات ہی کیا ہے مجھے معلوم ہے اتنا  کہ دیامِ زندگی پوشیدہ ہے ان چار قدموں میں بُہت سی راحتیں مضمرِ ہیں اِن دشوار رستوں میں - میرے بارے ناں کچھ سوچو تم اپنی بات بتلاؤ کہو تو چلتے رہتے  کہو تو لوٹ جاتے ھیں

پنجابی گیت

میرے جگر دیے رانیے نی  سوہنا چندن دا چرخہ بناناں لے کے راتاں توں سیاہ کالے رنگ میں تیرے نیناں وچ کجلا میں پاناں مہارانی بنائوں رانئیے نی  تیری امڑی نوں چھڈ کے توں آناں لے کے پریاں دے دیسوں جامنوں میں تیرا جامنی دوپٹہ رنگواناں  تیرے والاں دے چیرے نوں چمناں  تینوں دل دے پلنگ تے میں بٹھاناں

وہ اتنے دلکش ہیں

‏نظر ملائیں تو ہم جیسے سات پشتوں تک نظر کا قرض چکائیں وہ اتنے دلکش ہیں وه چاند عید کا اترے جو دل کے آنگن میں ہم روز عید منائیں وه اتنے دلکش ہیں

جن کو دل میں رکھتے ہیں

مُحبّت کی کہانی میں کہاں یہ موڑ آتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں  تمہارا نام لے لے کر تڑپنا کیا سلگنا کیا  مُحبّت تم جو ہو جاؤ تو ملنا کیا بچھڑنا کیا  یہ کیا کھیل تم بناتی ہو  بنا کر تم مٹاتی ہو جگر کا خون پیتی ہو دلوں کا ماس کھاتی ہو یہی ہیں چونچلے تیرے  جو محفل چھوڑ جاتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں چلو ہم پاس رکھ لیں گے  تیری باتیں تیری یادیں    مُحبّت تیرے صَدقے میں یہی ملتی ہیں سوغاتیں  ہنسیں گے دل سے مل کر ہم  گلے دل کو لگایئں گے  تجھے ہم یاد کرلیں گے  تجھے ہم بھول جایئں گے     چلو منزل سے پہلے ہم  یہ رستہ موڑ جاتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں

نظم

‏تم ان لوگوں میں شامل ہو جو سا تھ ر ہیں تو دنیا کی ہر چیز ا ضا فی لگتی ہے جو با ت گو ا ر ا مشکل ہو و ہ قا بلِ معافی لگتی ہے دم بھرکی قربت بھی جن کی صد یو ں کی تلافی لگتی ہے تم ان لوگوں میں شامل ہو

جی نوں جی ہوندی اے

جھلیا ! جی نوں جی ہوندی اے ہور محبت کیہ ہوندی اے تیرا مُکھڑا ویکھ کے سوچاں ایسی صورت وی ہوندی اے؟ عاشق نہ تے موٗتوں ڈردے نہ بُلھاں تے سی ہوندی اے ہر اک دل دی پریم کہانی یارو سچی ہی ہوندی اے پہلے توڑ دی بوتل ورگی پوری کِتھے پی ہوندی اے پیو دا لک جو دوہرا کردی اوہ ماڑے دی دھی ہوندی اے یارصفی ہُن میَں کیہ دساں آخر الفت کیہ ہوندی اے

قطعہ

‏مجھ سے میری عمر کا خسارہ پوچھتے ہیں یعنی لوگ مجھ سے تمہارا پوچھتے ہیں میں بتاتا ہوں اُس سے تعلق نہیں رہا انھیں یقین نہیں آتا اور دوبارہ پوچھتے ہیں

نومبر اداس لگتا ہے

وہ درجن بھر مہینوں سے سدا ممتاز لگتا ھے  ” نومبر “ کس لئے آخر  ھمیشہ خاص لگتا ھے  بہت سہمی ھوئی صبحیں  اداسی سے بھری شامیں  دوپہریں روئی روئی سی وہ راتیں کھوئی کھوئی سی  گرم دبیز ھواؤں کا وہ کم روشن اجالوں کا  کبھی گذرے حوالوں کا  کبھی مشکل سوالوں کا بچھڑ جانے کی مایوسی  ملن کی آس لگتا ھے  ” نومبر “  اس لیے شاید ھمیشہ خاص لگتا ھے ......!!!