Skip to main content

کتنی محبت ہے

میں جب بھی اس سے کہتا ہوں !

مجھے تم سے محبت ہے... !

وہ مجھ سے پوچھتی ہے یہ
بتاؤ نا.....!    کہ کتنی ہے؟

میں بازو کھول کر کہتا ہوں !

زمیں سے آسماں تک ہے
فلک کی کہکشاں تک ہے
میرے دل سے تیرے دل تک
مکاں سے لا مکاں تک ہے

وہ کہتی ھے، کہ بس اتنی!

میں کہتا ہوں....!

یہ بہتی ہے لہو کی تیز حدت میں
میرے جذبوں کی شدت میں
تیرے امکاں کی حسرت کی
میرے وجداں کی جدت میں

وہ کہتی ہے ....!

نہیں کافی ابھی تک یہ !

میں کہتا ہوں...!
ہوا کی سرسراہٹ ہے
تیرے قدموں کی آہٹ ہے
کسی شب کے کسی پل میں
مجسم کھنکھناہٹ ہے

وہ کہتی ہے یہ کیسے فیل (محسوس) ہوتی ہے؟

میں کہتا ہوں !

چمکتی دھوپ کی مانند
بلوریں سوت کی مانند
صبح کی شبنمی رت میں
لہکتی کوک کی مانند

وہ کہتی ہے ....!

مجھے بہکاوے دیتے ہو؟
مجھے سچ سچ بتاؤ نا
مجھے تم چاہتے بھی ہو
یا بس بہلاوے دیتے ہو؟

میں کہتا ہوں !

مجھے تم سے محبت ہے
کہ جیسے پنچھی پر کھولے
ہوا کے دوش پر جھولے
کہ جیسے برف پگھلے اور
جیسے موتیا پھولے !

وہ کہتی ھے....!

مجھے الو بناتے ہو!
مجھے  کیوں اتنا چاہتے ہو؟

میں اس سے پوچھتا ہوں اب
تمھیں مجھ سے محبت ہے؟

بتاؤ نا کہ، کتنی ہے
وہ بازو کھول کے
مجھ سے لپٹ کے
جھوم جاتی ہے !

میری آنکھوں کو کر کے بند
مجھ کو چوم جاتی ہے
دکھا کے مجھ کو وہ چٹکی
دھیرے سے مسکراتی ہے

میرے کانوں میں کہتی ہے
فقط اتنی____ فقط اتنی

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔