Skip to main content

Posts

Showing posts from August, 2024

Conscious Conversation

 "Conscious conversations are not about being 'right' or 'wrong', but about being present, curious, and open to new possibilities. They invite us to listen deeply, speak truthfully, and explore the unknown together." 7 lessons from "The Art of Conscious Conversations: Transforming How We Talk, Listen, and Interact" by Chuck Wisner, Mike Lenz, et al.: 1. Be Present in the Conversation Be fully engaged and attentive in the conversation, letting go of distractions and multitasking. This allows for deeper connection and understanding. 2. Listen Actively and Empathetically Listen with the intention to understand, rather than respond. Practice empathy and acknowledge the other person's perspective to create a safe and supportive space. 3. Speak Truthfully and Authentically Express yourself honestly and transparently, without judgment or agenda. This builds trust and encourages open and honest communication. 4. Ask Open-Ended and Curious Questions Ask q...

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے تجھ سے جب مل کر بھی اداسی کم نہیں ہوتی تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے کیسے کسی کی یاد ہمیں زندہ رکھتی ہے ایک خیال سہارا کیسے ہو سکتا ہے یار ہوا سے کیسے آگ بھڑک اٹھتی ہے لفظ کوئی انگارا کیسے ہو سکتا ہے کون زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا کر خوش ہے درد کسی کو پیارا کیسے ہو سکتا ہے ہم بھی کیسے ایک ہی شخص کے ہو کر رہ جائیں وہ بھی صرف ہمارا کیسے ہو سکتا ہے کیسے ہو سکتا ہے جو کچھ بھی میں چاہوں بول نا میرے یارا کیسے ہو سکتا ہے (جواد شیخ)

نظم

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر دکھ عبارت تو نہیں ،جو تجھے لکھ کر بھیجیں یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں آئینہ بھی تو نہیں ھے کہ دکھائیں تجھ کو تو نے پوچھا ھے مگر کیسے بتائیں تجھ کو۔۔۔؟؟ یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ھے جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ھوا جب بھی چلتی ھے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ھے اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ھے۔۔۔۔۔؟؟ جسم میں رینگتی رہتی ھے مسافت کی تھکن پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ھوئے حالات کا بوجھ اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ھے کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ھے مگر جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہیں ڈھونڈنا ھے نیا پیرائے اظہار ہمیں استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں۔۔۔۔!! دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ھے اک تغیر پس ہر شے ھے مگر ظلم کی ڈور ابھی معلوم نہیں ھے کہ کہاں ٹوٹتی ھے تو سمجھتا ھے کہ خوشبو سے معطر ھے حیات تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا۔۔۔۔۔!! تجھ ...

غزل

زمیں کو عُجلت، ہوا کو فُرصت، خلا کو لُکنت مِلی ہوئی ہے ہم احتجاجاً جی رہے ہیں یا اجازت ملی ہوئی ہے؟ ہم اپنی مرضی کے تارے چُن کر فلک پہ چہرے بنا رہے ہیں بغیر چھت کے پڑے ہوئے ہیں تو یہ سہولت مِلی ہوئی ہے بچھڑنے والوں کی بد دُعائیں ہماری عُمریں بڑھا رہی ہیں یہ زہر خالص نہیں ہے اس میں کسی کی چاہت ملی ہوئی ہے ہر ایک ناؤ بھٹک بھٹک کر ہمارے ساحل پہ آ رہی ہے ہر اک جزیرے کے باسیوں کو ایسی وحشت ملی ہوئی ہے ہماری اوقات کے مطابق ہمارے درجے بنے ہوئے ہیں کسی کو قُدرت، کسی کو مُہلت، کسی کو قسمت مِلی ہوئی ہے ہمایوں خان

قطعہ

‏یہ بھی مُمکن ہے کہ آنکھیں ہوں، تماشا ہی نہ ہو راس آنے لگے ہم کو تو یہ دُنیا ہی نہ ہو۔۔۔!! زندگی چاہیں تو خوابوں کے سِوا کُچھ نہ ملے  ڈوبنا چاہیں تو حاصل ہمیں دریا ہی نہ ہو۔۔!!

وہیں کھڑے ہیں

یقین مانو وہیں کھڑے ہیں  جہاں سے رستہ بدل گئے تم  جہاں مقدر نے مات دی تھی  جہاں سے خوشیاں بچھڑ گئ تھیں جہاں محبت نے موت دیکھی  جہاں چھڑایا تھا ہاتھ تم نے  جہاں اداسی نے ہاتھ تھاما  یہ ہجر ہم سے جہاں ملا تھا یقین مانو وہیں کھڑے ہیں  بتاؤ تم ہی کدھر کو جائیں  کسے پکاریں ، کسے بلائیں  یہ زخم اپنے کسے دکھائیں  یہاں جو ہم پے گزر رہی ہے  بتاؤ تم ہی ، کسے بتائیں  تمہارے جانے کے بعد ہم نے  یہ عہد خود سے ہی کر لیا ہے  تمہاری یادوں کے دشمنوں سے لڑائی جو ہے یہیں لڑیں گے  جیئں گے جتنا ، اسی جگہ پر  یقین رکھو ، یہیں مریں گے ....

قطعہ

‏یہ بھی مُمکن ہے کہ آنکھیں ہوں، تماشا ہی نہ ہو راس آنے لگے ہم کو تو یہ دُنیا ہی نہ ہو۔۔۔!! زندگی چاہیں تو خوابوں کے سِوا کُچھ نہ ملے  ڈوبنا چاہیں تو حاصل ہمیں دریا ہی نہ ہو۔۔!!

رات پھیلی ہے

رات پھیلی ہے تیرے، سرمئی آنچل کی طرح چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے، پاگل کی طرح خشک پتوں کی طرح، لوگ اُڑے جاتے ہیں شہر بھی اب تو نظر آتا ہے، جنگل کی طرح پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی پھر برسنے لگی آنکھیں مری، بادل کی طرح بے وفاؤں سے وفا کرکے، گذاری ہے حیات میں برستا رہا ویرانوں میں، بادل کی طرح شاعر : کلیم عثمانی

قطعہ

جھوٹے وعدوں کی لذتیں مت پوچھ آنکھ در سے لگی ہی رہتی ہے کچھ نئی بات تو نہیں قابلؔ ہجر میں بےکلی ہی رہتی ہے قابلؔ اجمیری

کبھی کبھی

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں