پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں ،جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ھے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ھے مگر کیسے بتائیں تجھ کو۔۔۔؟؟
یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ھے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ھوا
جب بھی چلتی ھے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ھے
اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ھے۔۔۔۔۔؟؟
جسم میں رینگتی رہتی ھے مسافت کی تھکن
پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ھوئے حالات کا بوجھ
اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ھے
کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ھے مگر
جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہیں
ڈھونڈنا ھے نیا پیرائے اظہار ہمیں
استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں۔۔۔۔!!
دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے
سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ھے
اک تغیر پس ہر شے ھے مگر ظلم کی ڈور
ابھی معلوم نہیں ھے کہ کہاں ٹوٹتی ھے
تو سمجھتا ھے کہ خوشبو سے معطر ھے حیات
تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا۔۔۔۔۔!!
تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقص جنوں کا عالم
ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ
ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ھے
اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ھے۔۔۔۔!!!
ایک دھن ھے جو سنائی نہیں دیتی پھر بھی
لے بہ لے بڑھتا چلا جاتا ھے ہنگامِ ستم
کو بہ کو پھیلتا جاتا ھےغبار ِمن وتو۔۔۔۔!!!
روح سے خالی ہوئے جاتے ہیں جسموں کے حرم
وقت بے رحم ھے,ہم رقص برہنہ ہیں سبھی۔۔۔۔!!
اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی۔۔۔۔۔۔!!
دشت مژ گاں میں بھٹکتا ھوا تاروں کا ہجوم
صفحہ لب پہ سسسکتی ھوئی آواز کی لو
دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ھے
روزن وقت سے آغاز سفر کرتی ھے
بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں
تو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹہرا ہی نہیں
تو نے دیکھے ہی نہیں حلق امروز کے رنگ
گرمی وعدہ فردا سے پگھلتے ہوئے لوگ
اپنے ہی خواب کی تعبیر میں جلتے ہوئےلوگ
بھوک اور پیاس کی اجڑی ہوئی فصلوں کی طرح
پرعزم ھتیلی کی لکیروں سے ابھرتے ہوے لوگ
امن کے نام پر۔۔۔۔۔۔۔ ! بارود بھری دنیا میں
خاصہ خشک کی مانند بکھرتے ہوئے لوگ
روز جیتے ہوئےاور روز ہی مرتے ہوئے لوگ
زندگی فلم نہیں ھے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ھے مگر کیسےبتائیں تجھ کو۔۔۔۔۔؟؟؟
کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں
رات بھاری ھے کہیں اور کہیں دن بھاری
ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ھے ہمیں
جس میں اک معرکہ سود و زیاں جاری ھے
پاؤں رکھے ہوے بارود پر سب لوگ جہاں
اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پروانہ شب
آستینوں میں چھپائے ہوئے مہتاب کوئی
اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق
نیند میں چلتے ہوئے دیکھتے ہیں خواب کوئی
اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ دیواروں سے
شب کے آثار ڈھلے,صبح کا سورج ابھرا
دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف
نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی
اور کسی وقفہ امکان سحر میں اب کہ
روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی۔۔۔۔!!
دیکھئے کیسے پہنچتی ھے ٹھکانے پہ کہیں۔۔۔؟؟
دور اک فاختہ۔۔۔۔۔۔ اڑتی ھے نشانے پہ کہیں
آ کے یہ منظر خون بستہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ھے مگر کیسےبتائیں تجھ کو۔۔۔۔۔؟؟؟
کوئی گاہک ہی نہیں جوہر آئندہ کا
چشم کھولے ہوئے بیٹھی ھے دکان گریہ
اور اسی منظر خون بستہ کے گوشے میں کہیں
سر پہ ڈالے ہوے اک لمحہ موجود کی دھول
تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں
وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے
دست خالی میں لیے کاسہ سر پھرتے ہیں۔۔۔۔۔!!
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر۔۔۔۔۔۔؟؟؟
دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
دکھ تو محسوس ھوا کرتا ھے۔۔۔۔!!
چاھے تیرا ھو یا میرا دکھ ھو
آدمی وہ ھے جسے جیتے جی
صرف اپنا نہیں سب کا دکھ ھو
چاک ھو جائے جو اک بار ہوس کے ہاتھوں
جامہ عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ھے
آسمان میری زمینوں پر جھکا ھے لیکن
تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ھے
سلیم کوثر
Comments
Post a Comment