یقین مانو وہیں کھڑے ہیں
جہاں سے رستہ بدل گئے تم
جہاں مقدر نے مات دی تھی
جہاں سے خوشیاں بچھڑ گئ تھیں
جہاں محبت نے موت دیکھی
جہاں چھڑایا تھا ہاتھ تم نے
جہاں اداسی نے ہاتھ تھاما
یہ ہجر ہم سے جہاں ملا تھا
یقین مانو وہیں کھڑے ہیں
بتاؤ تم ہی کدھر کو جائیں
کسے پکاریں ، کسے بلائیں
یہ زخم اپنے کسے دکھائیں
یہاں جو ہم پے گزر رہی ہے
بتاؤ تم ہی ، کسے بتائیں
تمہارے جانے کے بعد ہم نے
یہ عہد خود سے ہی کر لیا ہے
تمہاری یادوں کے دشمنوں سے
لڑائی جو ہے یہیں لڑیں گے
جیئں گے جتنا ، اسی جگہ پر
یقین رکھو ، یہیں مریں گے ....
Comments
Post a Comment