Skip to main content

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے
پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے

تجھ سے جب مل کر بھی اداسی کم نہیں ہوتی
تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے

کیسے کسی کی یاد ہمیں زندہ رکھتی ہے
ایک خیال سہارا کیسے ہو سکتا ہے

یار ہوا سے کیسے آگ بھڑک اٹھتی ہے
لفظ کوئی انگارا کیسے ہو سکتا ہے

کون زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا کر خوش ہے
درد کسی کو پیارا کیسے ہو سکتا ہے

ہم بھی کیسے ایک ہی شخص کے ہو کر رہ جائیں
وہ بھی صرف ہمارا کیسے ہو سکتا ہے

کیسے ہو سکتا ہے جو کچھ بھی میں چاہوں
بول نا میرے یارا کیسے ہو سکتا ہے

(جواد شیخ)

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔