Skip to main content

Posts

Showing posts from March, 2017

کرگس کا جہاں اور

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں. کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور. الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن. ملا کی اذان اور ہے مجاہد کی اذاں اور. (علامہ اقبال)

جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں  کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم کس محلے میں ہے مکاں تیرا کون سی شاخ ِ گل پہ رقصاں ہے جانے رشک ِ فردوس، آشیاں تیرا جانے کن وادیوں میں اترا ہے غیرت ِ حسن، کارواں تیرا کس سے پوچھوں گا میں خبر تیری کون بتلائے گا نشاں تیرا تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں حال ِ دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ تو رہی مدتوں قریب مرے کچھ تری عظمتوں کا ڈر بھی تھا کچھ خیالات تھے عجیب مرے آخرِ کار وہ گھڑی آئی باروَر ہوگئے رقیب مرے تو مجھے چھوڑ کر چلی بھی گئی خیر ! قسمت مری، نصیب مرے اب میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں گو زمانہ تری محبت کا ایک بھولی ہوئی کہانی ہے تیرے کوچے میں عمر بھر نہ گئے ساری دنیا کی خاک چھانی ہے لذت ِ وصل ہو کہ زخم فراق جو بھی ہو تیری مہربانی ہے کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا کس محبت سے ہار مانی ہے اپنی قمست پہ ناز کرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں اشک پلکوں پہ آ نہیں سکتے دل میں ہے تیری آبرو اب بھی تجھ سے روشن ہے کائنات مری تیرے...

غزل

وسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا میں نے اک وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا میں نے لکھا کہ صفِ دل کبھی خالی نہ ہوئی اور خالی جو ہوئی بھی تو ملامت لکھا یہ سفر پاؤں ہلانے کا نہیں آنکھ کا ہے میں نے اس باب میں رکنے کو مسافت لکھا لکھنے والوں نے تو ہونے کا سبب لکھا ہے میں نے ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا میں نے خوشبو کو لکھا دسترسِ گمشدگی رنگ کو فاصلہ رکھنے کی رعایت لکھا زخم لکھنے کے لئے میں نے لکھی ہے غفلت خون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا میں نے پرواز لکھی حدِ فلک سے آگے اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا حسنِ گویائی کو لکھنا تھا لکھی سرگوشی شور لکھنا تھا سو آزارِ سماعت لکھا اتنے دعوؤں سے گذر کر یہ خیال آتا ہے عزم کیا تم نے کبھی حرفِ ندامت لکھا (عزم بہزاد)

نظم

خواھشوں کے آنگن میں ۔۔۔۔۔ رات دن بسیرے تھے !! تتلیاں تمہاری تھیں۔۔۔۔۔۔ اور پھول میرے تھے !! چاند آسمانوں سے، جب زمین پہ اترتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھنے میں راتیں تھی اصل میں سویرے تھے !!! تیرے پاس بسنے کی کھائی تھی قسم ، لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ شہر بھی پیارا تھا، لوگ بھی لُٹیرے تھے ۔۔۔۔۔۔ !!! لوٹ گئے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن !!! تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور کس کا ھے ؟؟ خواھشیں بھی تیری تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! فیصلے بھی تیرے تھے ۔۔۔۔۔

نظم

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے میں اُس کے خیال سے گُریزاں وہ میری صدا جھٹک رہا ہے تحریر اسی کی ہے، مگر دل خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں اور، ذہن کہاں بھٹک رہا ہے صدیوں سے سفر میں ہے سمندر ساحِل پہ تھکن پٹک رہا ہے اک چاند صلیبِ شاخِ گُل پر بالی کی طرح لٹک رہا ہے پروینؔ شاکر

تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے

خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں، دلوں میں اُلفت نئی نئی ہے ابھی تکلف ہے گفتگو میں، ابھی محبت نئی نئی ہے ابھی نہ آئے گی نیند تم کو، ابھی نہ ہم کو سکوں ملے گا ابھی تو دھڑکے گا دل زیادہ، ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے بہار کا آج پہلا دن ہے، چلو چمن میں ٹہل کے آئیں فضا میں خوشبو نئی نئی ہے، گلوں میں رنگت نئی نئی ہے جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے ذرا سا قدرت نے کیا نوازا، کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں، ابھی تو شہرت نئی نئی ہے بموں کی برسات ہو رہی ہے، پُرانے جانباز سو رہے ہیں غلام دُنیا کو کر رہاہے، وہ جسکی طاقت نئی نئی ہے (شبینہ ادیب کانپوری)​

فارسی غزل بمعہ اردو ترجمہ

بیا و جوش تمنای دیدنم بنگر چو اشک از سر مژگاں چیکدنم بنگر (آؤ اور میرے شوق دیدار کی انتہا دیکھو میرے آنسوؤں کو پلکوں سے ٹپکتے ہوئے دیکھو) شنیدہ ام کہ نبینی و نا امید نیم ندیدن تو شنیدم، شنیدنم بنگر (مجھے تمہاری بے رخی کا پتا ہے لیکن میں مایوس نہیں تمہاری بے رخی کا میں نے سنا، اب مجھے سنتے ہوئے دیکھو) دمید دانہ و بالید در آشیاں گہے شد در انتظار ہما دانہ چیدنم بنگر (چھوٹا سا دانہ بڑا ہو کہ درخت بنا آشیانوں کی جگہ بن گیا میرا جال میں دانہ ڈال کے انتظار ہما تو دیکھ ذرا) زمن بہ جرم تپیدن کنارہ می کردی بیا بہ خاک من و آرمیدنم بنگر (تم نے میرے جرم کی پاداش میں مجھ سے کنارہ کر لیا اب میری خاک پر آکر مجھے محو خواب دیکھو)

چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑھی کی دوکانوں پر

آئے کیا کیا یاد نظر جب پڑتی ان دالانوں پر اس کا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر آج بھی جیسے شانے پر تم میرے ہاتھ رکھ دیتی ہو چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑی کی دوکانوں پر برکھا کی تو بات ہی چھوڑو چنچل ہے پروائی بھی جانے کس کا سبز دوپٹا پھینک گئی ہے دھانوں پر شہر کے تپتے فٹ پاتھوں پر گائوں کے موسم ساتھ چلیں بوڑھے برگد ہاتھ سا رکھ دیں میرے جلتے شانوں پر سستے داموں لے تو آتے لیکن دل تھا بھر آیا جانے کس کا نام کھدا تھا پیتل کے گلدانوں پر اس کا کیا من بھید بتاوں اس کا کیا انداز کہوں بات بھی میری سننا چاہے ہاتھ بھی رکھے کانوں پر اور بھی سینہ کسنے لگتا اور کمر بل کھا جاتی جب بھی اس کے پاوں پھسلنے لگتے تھے ڈھلوانوں پر شعر تو ان پر لکھے لیکن اوروں سے منسوب کیے ان کو کیا کیا غصہ آیا نظموں کے عنوانوں پر یارو اپنے عشق کے قصے یوں بھی کم مشہور نہیں کل تو شاید ناول لکھے جائیں ان رومانوں پر (جانثار اختر)

شعر

دیکھ  کر حیراں   ہوں آئینے کا _______ جگر،، ایک تو  قاتل سی نظر اس پے  کاجل کا قہر،،

اقوال دانش

زوال کی نشانی​ ایک ایسی قوم کا اپنے دشمنوں پر غلبہ پانا امر محال ہے ، جس کی دلچسپیوں کا بڑا حصہ کھیل اور تماشوں کی نظر ہوجاتا ہو ، جس کے اخبارات کا بڑا اور اہم حصہ اور جس کے ریڈیو اور ٹیلیویژن کا طویل اور اہم وقت ناچ ، گانے اور بے ہودہ و بے مقصد ڈراموں کے لیے مختص ہو۔ جس قوم کا سماجی اور اجتماعی مزاج انتا فاسد ہوگیا ہو کہ اس کے درمیان علماء اور مفکرین اور قیادت و راہنمائی کی صلاحیت رکھنے والوں کے بجائے فلمی اداکاروں کو عزت و توقیر سے نوازا جا رہا ہو تو بھلا ایسی قوم اپنے دشمن کو کیسے زیر کر سکتی ہے ؟؟؟؟؟ علامہ یوسف القرضاوی کے خط سے اقتباس

نظم

خواھشوں کے آنگن میں ۔۔۔۔۔ رات دن بسیرے تھے !! تتلیاں تمہاری تھیں۔۔۔۔۔۔ اور پھول میرے تھے !! چاند آسمانوں سے، جب زمین پہ اترتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھنے میں راتیں تھی اصل میں سویرے تھے !!! تیرے پاس بسنے کی کھائی تھی قسم ، لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ شہر بھی پیارا تھا، لوگ بھی لُٹیرے تھے ۔۔۔۔۔۔ !!! لوٹ گئے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن !!! تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور کس کا ھے ؟؟ خواھشیں بھی تیری تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! فیصلے بھی تیرے تھے ۔۔۔۔۔

قطعہ

برسات میں ، اشکوں کے مہینے میں آ دھڑکن کی طرح درد کے سینے میں آ اشفاق نکل کفر سے باہر کچھ دیر آ اپنی محبت کے مدینے میں آ

قطعہ

اُس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا میں بھی گویا اُسی کو بُھول گیا یعنی تم وہ ہو، واقعی! حد ہے میں تو سچ مُچ سبھی کو بُھول گیا ....!!! (جون ایلیا)

مریض محبت

مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بجھ گیا جلتے جلتے انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا "محبت نہ کرتے تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا؟ بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے" مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈوبے ستارے قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے استاد قمر جلالوی​

یہ حدیث۔ دلبراں ہے یہ کمال دلبری ہے

یہ حدیث۔ دلبراں ہے یہ کمال۔ دلبری ہے __________________________________________ اے تغیر زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے مرے ساتھ تم بھی چلنا مرے ساتھ تم بھی آنا ذرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے میرے داغِ دل لیے ہیں تری بزم جب سجی ہے غمِ زندگی کہاں ہے ابھی وحشتوں سے فرصت ترے ناز اٹھا ہی لیں گے ابھی زندگی پڑی ہے ترے خشک گیسوؤں میں مری آرزو ہے پنہاں ترے شوخ بازوؤں میں مری داستاں رچی ہے جسے اپنا یار کہنا اسے چھوڑنا بھنور میں! یہ حدیثِ دلبراں ہے یہ کمالِ دلبری ہے وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے ساغرصدیقی

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔

شعر

گر سیہ بخت ہی ہونا تھا نصیبوں میں مرے زلف ہوتا ترے رخسار پہ ۔۔۔۔ یا تل ہوتا ذوق دہلوی

شعر

چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے  غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

کوئی پوچھے ذرہ ان سے

ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺫﺭﺍ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺫﺭﺍ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺩﻝ ﺟﺐ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﻫو تو تو ﮐﯿﺎ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﻻﺯﻡ ﮬﮯ؟ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ اﻋﻼﻥ ﻭﺍﺟﺐ ﮬﮯ؟ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺫﺭﺍ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﻨﮯ ﭘر ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺘﻮی ﻧﻬﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ؟ ﻋﺠﺐ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮬﮯ ﺻﺎﺣﺐ ! ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺫﺭﺍ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﺱ ﮐﻮ کہتے ﻫﯿﮟ؟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ؟ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﺴﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ؟ ﺍﮔﺮ یہ ہی ﻣﺤﺒﺖ ﮬﮯ تو ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ہماری ﺑﮯ ﺭﺧﯽ ﺍﭼﮭﯽ.........!

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا بےنیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب وہوا کی باتیں اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا یونہی بے وجہ ٹھٹھکنے کی ضرورت کیا تھی دم رخصت اگر یاد نہ آیا ہوتا تیرا غماز بنا خود تیرا اندازِ خرام دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا اپنے بدلے میری تصویر نظر آجاتی تُو نے اُس وقت اگر آئینہ دیکھا ہوتا حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا ورنہ کاجل تیری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا

شعر

میرے کم سخن کا یہ حکم تھا، کہ کلام اس سے میں کم کروں میرے ہونٹ ایسے سلے کہ پھر، مری چپ نے اسے رلا دیا

بچھڑ جانے کی خواہش

تِرے پہلو میں لے آئی بچھڑ جانے کی خواہش کہ گل کو شاخ تک لاتی ہے جھڑ جانے کی خواہش تمہیں بسنے نہیں دیتا ہے بربادی کا دھڑکا ہمیں آباد رکھتی ہے اجڑ جانے کی خواہش​ خلا میں جو ستاروں کے غبارے اڑ رہے ہیں انہیں پھیلاۓ رکھتی ہے سُکڑ جانے کی خواہش کہاں تک دیکھتے ہیں، آسماں کی وسعتوں میں اڑاتی ہے ہمیں مٹی میں گڑ جانے کی خواہش جواز جعفری​

لوگ کہتے ہیں گلستاں میں بہار آئی ہے

لوگ کہتے ہیں گلستاں میں بہار آئی ہے پھول کہتا ہے مری جان پہ بن آئی ہے تھام کر ہاتھ مرا، اس نے کسی کی نہ سنی لوگ کہتے رہے سودائی، سودائی ہے ان سے ملنے پہ بھی لوگوں نے بنائی باتیں اور اب ان سے نہ ملنے پہ بھی رسوائی ہے میں اکیلا تو نہیں میرے کئی ساتھی ہیں آپکی یاد ہے، غم ہے، مری تنہائی ہے شاخ سے توڑ کے جو چاہے اسے لے جائے صرف بھنورا ہی نہیں، پھول بھی ہرجائی ہے اپنے بارے میں بھی اب سوچ لیا کرتا ہوں حاصلِ ترکِ مراسم یہی دانائی ہے (پروفیسر منور علی ملک-میانوالی)