جب ترے شہر سے گزرتا ہوں کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم کس محلے میں ہے مکاں تیرا کون سی شاخ ِ گل پہ رقصاں ہے جانے رشک ِ فردوس، آشیاں تیرا جانے کن وادیوں میں اترا ہے غیرت ِ حسن، کارواں تیرا کس سے پوچھوں گا میں خبر تیری کون بتلائے گا نشاں تیرا تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں حال ِ دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ تو رہی مدتوں قریب مرے کچھ تری عظمتوں کا ڈر بھی تھا کچھ خیالات تھے عجیب مرے آخرِ کار وہ گھڑی آئی باروَر ہوگئے رقیب مرے تو مجھے چھوڑ کر چلی بھی گئی خیر ! قسمت مری، نصیب مرے اب میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں گو زمانہ تری محبت کا ایک بھولی ہوئی کہانی ہے تیرے کوچے میں عمر بھر نہ گئے ساری دنیا کی خاک چھانی ہے لذت ِ وصل ہو کہ زخم فراق جو بھی ہو تیری مہربانی ہے کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا کس محبت سے ہار مانی ہے اپنی قمست پہ ناز کرتا ہوں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں اشک پلکوں پہ آ نہیں سکتے دل میں ہے تیری آبرو اب بھی تجھ سے روشن ہے کائنات مری تیرے...