وسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا
میں نے اک وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا
میں نے اک وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا
میں نے لکھا کہ صفِ دل کبھی خالی نہ ہوئی
اور خالی جو ہوئی بھی تو ملامت لکھا
اور خالی جو ہوئی بھی تو ملامت لکھا
یہ سفر پاؤں ہلانے کا نہیں آنکھ کا ہے
میں نے اس باب میں رکنے کو مسافت لکھا
میں نے اس باب میں رکنے کو مسافت لکھا
لکھنے والوں نے تو ہونے کا سبب لکھا ہے
میں نے ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا
میں نے ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا
اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے
عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا
عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا
میں نے خوشبو کو لکھا دسترسِ گمشدگی
رنگ کو فاصلہ رکھنے کی رعایت لکھا
رنگ کو فاصلہ رکھنے کی رعایت لکھا
زخم لکھنے کے لئے میں نے لکھی ہے غفلت
خون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا
خون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا
میں نے پرواز لکھی حدِ فلک سے آگے
اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا
اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا
حسنِ گویائی کو لکھنا تھا لکھی سرگوشی
شور لکھنا تھا سو آزارِ سماعت لکھا
شور لکھنا تھا سو آزارِ سماعت لکھا
اتنے دعوؤں سے گذر کر یہ خیال آتا ہے
عزم کیا تم نے کبھی حرفِ ندامت لکھا
عزم کیا تم نے کبھی حرفِ ندامت لکھا
(عزم بہزاد)
Comments
Post a Comment