Skip to main content

اقوال دانش

زوال کی نشانی​
ایک ایسی قوم کا اپنے دشمنوں پر غلبہ پانا امر محال ہے ، جس کی دلچسپیوں کا بڑا حصہ کھیل اور تماشوں کی نظر ہوجاتا ہو ، جس کے اخبارات کا بڑا اور اہم حصہ اور جس کے ریڈیو اور ٹیلیویژن کا طویل اور اہم وقت ناچ ، گانے اور بے ہودہ و بے مقصد ڈراموں کے لیے مختص ہو۔
جس قوم کا سماجی اور اجتماعی مزاج انتا فاسد ہوگیا ہو کہ اس کے درمیان علماء اور مفکرین اور قیادت و راہنمائی کی صلاحیت رکھنے والوں کے بجائے فلمی اداکاروں کو عزت و توقیر سے نوازا جا رہا ہو تو بھلا ایسی قوم اپنے دشمن کو کیسے زیر کر سکتی ہے ؟؟؟؟؟

علامہ یوسف القرضاوی کے خط سے اقتباس

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔