آئے کیا کیا یاد نظر جب پڑتی ان دالانوں پر
اس کا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر
اس کا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر
آج بھی جیسے شانے پر تم میرے ہاتھ رکھ دیتی ہو
چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑی کی دوکانوں پر
چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑی کی دوکانوں پر
برکھا کی تو بات ہی چھوڑو چنچل ہے پروائی بھی
جانے کس کا سبز دوپٹا پھینک گئی ہے دھانوں پر
جانے کس کا سبز دوپٹا پھینک گئی ہے دھانوں پر
شہر کے تپتے فٹ پاتھوں پر گائوں کے موسم ساتھ چلیں
بوڑھے برگد ہاتھ سا رکھ دیں میرے جلتے شانوں پر
بوڑھے برگد ہاتھ سا رکھ دیں میرے جلتے شانوں پر
سستے داموں لے تو آتے لیکن دل تھا بھر آیا
جانے کس کا نام کھدا تھا پیتل کے گلدانوں پر
جانے کس کا نام کھدا تھا پیتل کے گلدانوں پر
اس کا کیا من بھید بتاوں اس کا کیا انداز کہوں
بات بھی میری سننا چاہے ہاتھ بھی رکھے کانوں پر
بات بھی میری سننا چاہے ہاتھ بھی رکھے کانوں پر
اور بھی سینہ کسنے لگتا اور کمر بل کھا جاتی
جب بھی اس کے پاوں پھسلنے لگتے تھے ڈھلوانوں پر
جب بھی اس کے پاوں پھسلنے لگتے تھے ڈھلوانوں پر
شعر تو ان پر لکھے لیکن اوروں سے منسوب کیے
ان کو کیا کیا غصہ آیا نظموں کے عنوانوں پر
ان کو کیا کیا غصہ آیا نظموں کے عنوانوں پر
یارو اپنے عشق کے قصے یوں بھی کم مشہور نہیں
کل تو شاید ناول لکھے جائیں ان رومانوں پر
کل تو شاید ناول لکھے جائیں ان رومانوں پر
(جانثار اختر)
آج بھی جیسے شانے پر تم ہاتھ میرے رکھ دیتی ہو
ReplyDeleteچلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑی کی دوکانوں پر