Skip to main content

Posts

Showing posts from 2018

زندگی خاک نہ تھی

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﺎﮎ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ،ﺧﺎﮎ ﺍُﮌﺍﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺘﮯ؟ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ﺁﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺩﻥ ﺟﻮ ﮔﺰﺭﺍ ،ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﺭَﻭ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺷﺎﻡ ﺁﺋﯽ، ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﺩِﮐﮭﺎ ﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺍﭼﮭﮯ ﻭَﻗﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﻋﻤﺮِ ﺭﻭﺍﮞ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺴﺎﺗﮭﺎ، ﮐﮧ ﺑﺲ ﻧﺎﺯ ﺍُﭨﮭﺎﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺗﯿﺮﯼ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺒﮭﺎﻧﺎ، ﺳﻮ ﻧﺒﮭﺎﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﺍُﺩﮬﺮ ﮨﮯ، ﮐﺴﯽ ﺳَﺮﺷﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍِﺩﮬﺮ ﺩُﻭﺭ ﺳﮯ ،ﺍِﮎ ﺁﺱ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﮐﯿﺎ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﮨُﻮ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﺳُﻨﺘﮯ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺑﺎﺭ ﮨﺎ ﭼﻮﻧﮏ ﺳﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣُﺴﺎﻓﺖ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺗﮭﯽ، ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﻮ ﺑﻼﺗﮯ ﮔﺰﺭﯼ!

کلام شاھ حسین

اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس ساھڈی جِند نمانی کُوکدی اسی رُلّ گئے وِچّ پردیس ساھڈا ہر دم جی کُرلاوندا ، ساھڈی نِیر وگاوے اَکّھ اساں جیوندی جاندے مر گئے، س...

یوں ہے

اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے

قطعہ

ٹھیک ہے بیٹھے رہو، راہ تکو، مر جاؤ .. وعدہ یار ہے، سچا تو لگے گا تم کو .. دنیا مقتل بھی کہے تم تو نہیں مانو گے .. کوچہ یار ہے اچھا تو لگے گا تم کو ..

نمکین طبیعت کے

. شوقین مزاجوں کے رنگین طبیعت کے وہ لوگ بلا لاؤ نمکین طبیعت کے دکھ درد کے پیڑوں پر اب کے جو بہار آئی پھل پھول بھی آئے ہیں غمگین طبیعت کے خیرات محبت کی پھر بھی نہ ملی ہم کو ہم لاکھ...

جنگل سا بس گیا ہے

کوئی نہیں خلوص کےمحور کے آس پاس جنگل سا بس گیا ھے میرے گھرکےآس پاس یہ کون مجھ سےپہلےگیا سرکو پھوڑ کر سُرخی لہو کی پھیلی ہے پتھر کے آس پاس دُنیا نے اُس کو ریت سے منسوب کردیا...

قطعہ

‏میں آج اگر اداس ہوں تو کیا ہوا یہ زندگی کا اختتام تو نہیں پتہ نہیں میں کب پلٹ کے آسکوں کسی کو مجھ سے کوئی کام تو نہیں؟

مائی بشیراں

ایک بوڑھی عورت گواہی دینے عدالت میں پیش ہوئی تو وکیل استغاثہ نے گواہ پر جرح شروع کی۔ بڑھیا قصبے کی سب سے قدیمی مائی تھی۔اور دنیا کا سرد گرم خوب جانتی تھی۔ وکیل استغاثہ بھرپ...

قطعہ

ترے وعدے کی حقیقت تو عیاں ہے لیکن آہ وہ لوگ ____ جو مجبورِ یقیں ہوتے ہیں کیوں نہ اِک جھوٹی تسلی پہ قناعت کر لیں لوگ کہتے ہیں عدم ____ خواب حسیں ہوتے ہیں ________________ عبد الحمید عدم

قطعہ

دم بخود ہم تو ڈرے بیٹھے ہیں وہ حبابوں سے بھرے بیٹھے ہیں قتل ہونے پہ مرے بیٹھے ہیں سر ہتھیلی پہ دھرے بیٹھے ہیں شادؔ لکھنوی

کہاوتوں کی کہانیاں

حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں​ مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحب زادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا "اوسط گہرائی چار فٹ"۔ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔ اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔ ...

قطعہ

بکھرا ہُوا ہوں شہرِ طلب میں اِدھر اُدھر اب تیری جستجو کو میّسر نہیں ہوں میں تُو جب طلب کرے گا مجھے بہر ِ التفات اُس دن خبر ملے گی کہ در پر نہیں ہوں میں

کوئی دیوانہ سمجھتا ہے

کوئی دیوانہ کہتا ہے  کوئی پاگل سمجھتا ہے مگر دھرتی کی بے چینی  کو بس بادل سمجھتا ہے میں تجھ سےدور کیسا ہوں تو مجھ سےدور کیسی ہے یہ میرا دل سمجھتا ہے یا تیرا دل سمجھتا ہے محبت ا...

غزل

کسی کو چاند اور کسی کو تاروں سے مسئلہ ہے، اُســــــے خزاں سے مجھے بہاروں سے مسئلہ ہے، دلِ شکستہ اُس ایک لڑکی کو کافی دن سے، تـــــرے علاوہ تمام یاروں ســـــے مسئلہ ہے، مجھ...

یاد نہ آیا کوئی

کیا لگے آنکھ ، کہ پِھر دل میں سمایا کوئی رات بھر پِھرتا ہے اِس شہر میں سایا کوئی فِکر یہ تھی کہ شب ہجر کٹے گی کیوں کر لُطف یہ ہے کہ ہمَیں یاد نہ آیا کوئی شوق یہ تھا کہ محبت میں جلی...

کیوں نہیں دیتے

ایک بارہی جی بهر کے سزا کیوں نہیں دیتے گر حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے ایسے ہی اگر مونس و غمخوار ہو میرے یارو مجهے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے اب دشتِ غم سے مرا دم گھٹنے لگ...