ایک بارہی جی بهر کے سزا کیوں نہیں دیتے
گر حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
ایسے ہی اگر مونس و غمخوار ہو میرے
یارو مجهے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اب دشتِ غم سے مرا دم گھٹنے لگا ہے
تم ریشمی زلفوں کی ہوا کیوں نہیں دیتے
فردا کے دهند لکوں میں مجهےڈهونڈنے والو
ماضی کے دریچوں سے صدا کیوں نہیں دیتے
موتی ہوں تو پهر سوزن مژگاں سے پرولو
آنسو ہوں تو دامن پہ گرا کیوں نہیں دیتے
سایہ ہوں تو پهر ساتھ نہ رکهنے کا سبب کیا
پتهر ہوں تو رستے سےہٹا کیوں نہیں دیتے.
مرتضی برلاس
========================
پردہ رُخِ روشن سے ہٹا کیوں نہیں دیتے
ہوش اہل نظارا کے اُڑاکیوں نہیں دیتے
وارفتگیِ شوق بڑھا کر مری آخر
منزل کا مری مجھ کو پتا کیوں نہیں دیتے
حایل ہے اگر بیچ میں یہ امن و سکوں کے
تم ظلم کی دیوار کو ڈھا کیوں نہیں دیتے
کیوں بیٹھ گئے تھک کے وہ ہے سامنے منزل
دو چار قدم اور بڑھا کیوں نہیں دیتے
جب پیش کیا اپنا تعارف تو وہ بولا
تم عظمتِ رفتہ کو بھُلا کیوں نہیں دیتے
حق جو ہے مرا اُن سے وہی مانگ رہا ہوں
وہ میری وفاؤں کا صلا کیوں نہیں دیتے
اقبالؔ کی عظمت سے جو بے بہرہ ہیں اب تک
پڑھنے کو اُنھیں بانگِ درا کیوں نہیں دیتے
میں اُن کی نگاہوں میں کھٹکتا ہوں اگر وہ
بے جُرم و خطا مجھ کو سزا کیوں نہیں دیتے
حقدار کا حق جو بھی غصب کرتے ہیں برقیؔ
اوقات اُنھیں اُن کی بتا کیوں نہیں دیتے
احمد علی برقی
============================
محرومئی احساس ‘ مٹا کیوں نہیں دیتے
اور جرأت اظہار‘ دکھا کیوں نہیں دیتے
اب تاب نہیں درد و غم جبر کی اے دل
دیتے ہو جو تم درد ، دوا کیوں نہیں دیتے
فرعونیت سیسی کو کرنے کے لیے غرق
موسی کسی مرسی کو بنا کیوں نہیں دیتے
کہتی ہے یہ سفاکیت منصف دوراں
مانگے جو جزا اس کو سزا کیوں نہیں دیتے
ہے رزم گہہ مصر میں حق برسرپیکار
باطل کو تہِ تیغ دبا کیوں نہیں دیتے
خوں ریز عزائم ہیں ، مقاصد بھی ہیں مہلک
یارب میرے دشمن کو فنا کیوں نہیں دیتے
محتاج ہے اسلام کا ہر ذرۂ عالم
حقانیت دیں کو بقا کیوں نہیں دیتے
خلاق جہاں آفت جاں ٹال ہی دیں گے
عرض دل و جاں رب کو سنا کیوں نہیں دیتے
مجبورئ حالات گراں بار ہے بے شک
کچھ حوصلہ و عزم بڑھا کیوں نہیں دیتے
بدلیں گے نصیب اپنے عمل اور دعا سے
سب مل کے اٹھا دست دعا کیوں نہیں دیتے
نعمان ؔ ہر ایک جدت امروز کی خاطر
ہر تلخئ فردا کو بھلا کیوں نہیں دیتے
محمد نعمان اکرمی
=====================!!=
گر ہم نے کیا جرم سزا کیوں نہیں دیتے
کیوں ہم پہ مہرباں ہو بتا کیوں نہیں دیتے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی دیار ِغیر میں
پہچان کے بھی ہم کو سزا کیوں نہیں دیتے
آ دیکھ تیرے بعد جنوں میں دل ِ مضطر
کس حال میں ہے اس کو دوا کیوں نہیں دیتے
گزری ہے ہم پہ جو بھی بس گزر گئ
رنجش کو دل اپنے سے مٹا کیوں نہیں دیتے
ہم کہ مریض ِعشق اب ترے روبرو
محرم ہوں کہ مجرم شفا کیوں نہیں دیتے
حد سے بڑھا جنوں آیا جو سامنے
اے دشمنِِ ِ جاں! حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
سعیدہ مظفر-
==========================
جب پیار نہیں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے
خط کس لئے رکھے ہیں جلا کیوں نہیں دیتے
کس واسطے لکھا ہے ہتھیلی پہ مرا نام
میں حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
للٰلہ شب و روز کی الجھن سے نکالو
تم میرے نہیں ہو تو بتا کیوں نہیں دیتے
رہ رہ کے نہ تڑپاؤ اے بے درد مسیحا
ہاتھوں سے مجھے زہر پلا کیوں نہیں دیتے
جب اس کی وفاؤں پہ یقیں تم کو نہیں ہے
حسرتؔ کو نگاہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے
حسرت جے پوری
========≠================
ﻣﺠﺮﻡ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﺳﺰﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺍﺱ ﭘﯿﮍ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺗﻨﯽ ﮔﮭﭩﻦ ﮨﮯ
ﮨﯿﮟ ﺳﺒﺰ ﯾﮧ ﭘﺘﮯ ﺗﻮ ﮨﻮﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺟﺲ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺳﻔﯿﺪﯼ ﮐﯽ ﻣﻼﻭﭦ
ﺍﺱ ﺧﻮﻥ ﮐﻮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺁﺋﯿﻨﮯ ﺳﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮏ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺠﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺍﺱ ﻋﺮﺻﮧﺀ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻨﮩﺎ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ
ﮨﻮ ﺩﺭﺩ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﺻﺪﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﻨﺠﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ
ﻗﺪ ﺍﭘﻨﺎ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﮔﮭﭩﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﮨﮯ ﺁﮒ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﮭﯿﻞ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ
ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺪﻥ ﺁﭖ ﺟﻼ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﺟﻮ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ
ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
راشد فضلی
===≠=================!!!
ﺑﮯ ﺩﻡ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺩﻭﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺗﻢ ﺍﭼﮭﮯ ﻣﺴﯿﺤﺎ ﮨﻮ ﺷﻔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺩﺭﺩِ ﺷﺐِ ﮨﺠﺮﺍﮞ ﮐﯽ ﺟﺰﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺧﻮﻥِ ﺩﻝِ ﻭﺣﺸﯽ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﮨﺎﮞ ﻧﮑﺘﮧ ﻭﺭﻭ ﻻﺅ ﻟﺐ ﻭ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ
ﮨﺎﮞ ﻧﻐﻤﮧ ﮔﺮﻭ ﺳﺎﺯ ﺻﺪﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﻣِﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺗﻮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ
ﻣﻨﺼﻒ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺣﺸﺮ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﭘﯿﻤﺎﻥِ ﺟﻨﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞﮐﻮ ﺷﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﺐ ﺗﮏ
ﺩﻝ ﻭﺍﻟﻮ ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺑﺮﺑﺎﺩﯼٔ ﺩﻝ ﺟﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﯿﺾؔ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﺩﺷﻤﻦِ ﺟﺎﮞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑُﮭﻼ ﮐﯿﻮﮞﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
فیض احمد فیض
==========================
اے اہلِ وفا دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
اس جشنِ چراغاں سے تو بہتر تهے اندهیرے
ان جهوٹے چراغوں کو بجها کیوں نہیں دیتے
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
دیوار کا یہ عزر سنا جائے گا کب تک
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے
چہروں پہ جو ڈالے ہوئے بیٹهے ہیں نقاب
ان لوگوں کو محفل سے اٹها کیوں نہیں دیتے
توبہ کا یہی وقت ہے کیا سوچ رہے ہیں
سجدے میں جبینوں کو جهکا کیوں نہیں دیتے
یہ جهوٹے خدا مل کے ڈبو دیں گے سفینہ
تم ہادیِ برحق کو صدا کیوں نہیں دیتے
اقبال عظیم
========================
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے
کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
احمد فراز
=====================
اب جام نگاہوں کے نشہ کیوں نہیں دیتے
اب بول محبت کے مزا کیوں نہیں دیتے
تم کھول کے زلفوں کو اڑا کیوں نہیں دیتے
تم شان گھٹاؤں کی گھٹا کیوں نہیں دیتے
اک گھونٹ کی امید سمندر سے نہیں جب
پھر آگ سمندر میں لگا کیوں نہیں دیتے
ہے منتظر حشر بہت دیر سے دنیا
گھنگھرو ترے پیروں کے صدا کیوں نہیں دیتے
یہ دھوپ رہے گی تو یہ رسوائی کرے گی
سورج کو گنہ گار بجھا کیوں نہیں دیتے
تم دوسرے لوگوں پہ نہ رکھا کرو الزام
ہر بات میں تم میری خطا کیوں نہیں دیتے
قاتل کا ہے کیا نام یہ سب پوچھ رہے ہیں
کیا ہم بھی ہیں ہم نام بتا کیوں نہیں دیتے
تم کو مرے انداز وفا سے ہے شکایت
تم مجھ کو وفا کر کے دکھا کیوں نہیں دیتے
جو لوگ علیمؔ اپنی جگہ میر بنے ہیں
اشعار کو وہ طرز ادا کیوں نہیں دیتے
علیم عثمانی
=====================
بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا کیوں نہیں دیتے
پھر آ کے ہمیں یار رلا کیوں نہیں دیتے
یا روٹھ چلو مجھ سے تو یا ٹوٹ کے برسو
ہر روز کا جھگڑا ہے چکا کیوں نہیں دیتے
شاید کہ ملائک تری نصرت کو اتر آئیں
فریاد سے پھر عرش ہلا کیوں نہیں دیتے
ہر روز کا فاقہ ہے مشقت سے کٹے گا
روتے ہوئے بچوں کو سلا کیوں نہیں دیتے
وحشت کے گلی کوچوں میں تار اس کی ردا ہے
سوئے ہوئے انساں کو جگا کیوں نہیں دیتے
شاہ جی علی
Comments
Post a Comment