خرید کر جو پرندے اڑائے جاتے ہیں
ہمارے شہر میں کثرت سے پائے جاتے ہیں
میں دیکھ آیا ہوں اِک ایسا کارخانہ ‘ جہاں
چراغ توڑ کے سورج بنائے جاتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں ‘ پہلے کبھی نہيں دیکھے
جو کھینچ تان کے منظر پہ لائے جاتے ہیں
اے آسماں تجھے اُن کی خبر بھی ہے کہ نہيں
جو دن دیہاڑے زمیں سے اٹھائے جاتے ہیں
یہ ساری فِــلم ہی اچّھـی طـــرح بنی ہوئی ہے
مگر جو سِِــین اچانک دکھائے جاتے ہیں
میں اِس لیے بھی سَــمُندر سے خوف کھاتا ہوں
مجھـے نصاب میں دریـا پڑھائے جاتے ہیں
کہیں مِلیں گے تو پھر جان جاؤ گے’ عـامـی
ہـم ایسـے ہیـں نہيـں ‘ جیسـے بتائے جاتے ہیں
Comments
Post a Comment